Dast-e-Taqdeer Se Har Shakhs Nay Hissa Paya,Mere Hissay Main Teray Saath Ki Hasrat Aai...!!

Wednesday, April 20, 2016

عادتیں

سانس لینا بھی کیسی عادت ہے
جیئے جانا بھی کیا روایت ہے
کوئی آہٹ نہیں بدن میں کہیں
کوئی سایہ نہیں ہے آنکھوں میں
پاؤں بے حِس ہیں چلتے جاتے ہیں
اِک سفر ہے جو بہتا رہتا ہے
کتنے برسوں سے کتنی صدیوں سے
سانس لیتے ہیں، جیتے رہتے ہیں
عادتیں بھی عجیب ہوتی ہیں

کرید

جی چاہے کہ
پتھر مار کے سورج ٹکڑے ٹکڑے کردوں
سارے فلک پر بکھرا دوں اس کانچ کے ٹکڑے 
جی چاہے کہ
لمبی ایک کمند بنا کر
دور افق پر ہُک لگاؤں
کھینچ کے چادر چیر دوں ساری
جھانک کے دیکھوں پیچھے کیا ہے
شاید کوئی اور فلک ہو!

خواب کی دستک

صبح صبح اِک خواب کی دستک پر دروازہ کھولا، دیکھا 
سرحد کے اُس پار کچھ مہمان آئے ہیں 
آنکھوں سے مانوس تھے سارے 
چہرے سارے سُنے سنائے 
پاؤں دھوئے ، ہاتھ دُھلائے 
آنگن میں آسن لگوائے…….. 
اور تنور پہ مکی کے کچھ موٹے موٹے روٹ پکائے 
پوٹلی میں مہمان مِرے 
پچھلے سالوں کی فصلوں کا گڑ لائے تھے
آنکھ کھلی تو دیکھا گھر میں کوئی نہیں تھا
ہاتھ لگا کر دیکھا تو تنور ابھی تک بُجھا نہیں تھا
اور ہو نٹوں پر میٹھے گڑ کا ذائقہ اب تک چپک رہا تھا
خواب تھا شاید ! 
خواب ہی ہو گا ! 
سرحد پر کل رات ، سُنا ہے ، چلی تھی گو لی
سرحد پر کل رات، سُنا ہے 
کچھ خوابوں کا خون ہوا تھا ! 

معنی کا عذاب


چوک سے چل کر، منڈی اور بازار سے ہوکر
لال گلی سے گزری ہے کاغذ کی کشتی
بارش کے لاوارث پانی پر بیٹھی بیچاری کشتی
شہر کی آوارہ گلیوں میں سہمی سہمی گھوم رہی ہے
پوچھ رہی ہے
ہر کشتی کا ساحل ہوتا ہے تو کیا میرا بھی کوئی ساحل ہوگا
بھولے بھالے اک بچے نے
بے معنی کو معنی دے کر
ردی کے کاغذ پر کیسا ظلم کیا ہے

Sunday, December 13, 2015

دسمبر...!



دسمبر...!
مجھے تجھ سے کوئی شکایت نہیں ہے 
نہ تجھ سے گلہ ہے 
کہ تو نے مجھے بے سبب سی اداسی کا تحفہ دیا ہے 
نہ مجھ کو تری سرد راتوں کی تنہائیوں میں
کسی اپنے غم کو جلا کر اُسے تاپنا ہے 
نہ تجھ سے کوئی بات کہنی ہے مجھ کو 
دسمبر....!
حقیقت یہی ہے کہ میں تیرے آنے سے پہلے بھی ایسا ہی تھا
نارسائی کے غم میں سلگتا
اداسی کی چادرمیں لپٹا 
اور اپنے ہی اندر کی ویرانیوں پر 
کبھی شعر کہتا 
کبھی نظم لکھتا
دسمبر....!
حقیقت یہی ہے 
ترے بعد بھی میرے معمول میں کوئی تبدیلی آئے 
یہ ممکن نہیں 
سالہا سال سے میں اسی دائرے میں سفر کر رہا ہوں 
ترا دوش کوئی نہیں ہے دسمبر
مجھے تجھ سے کوئی شکایت نہیں ہے...!!

Wednesday, August 14, 2013

تمہارے اور میرے درمیاں


تمہارے اور میرے درمیاں اک بات ہونا تھی
بِلا کا دن نکلنا تھا بَلا کی رات ہونا تھی
بلا کا دن بھی نکلا اور بَلا کی رات بھی گزری
عذابِ ذات بھی گزرا فنائے ذات بھی گزری
o
مگر معلوم نامعلوم میں جانے نہ جانے کیوں
تمہارے اور میرے درمیاں وہ بات جانم جاں
کسی صورت نہ ہو پائی کسی صورت نہ ہو پائی
میرے دل اور میری جان کے گزرے زمانے کیوں
تمہارے اور میرے درمیاں اک بات ہونا تھی

تمہارا فیصلہ جاناں مجھے بے حد پسند آیا






تمہارا فیصلہ جاناں مجھے بے حد پسند آیا
پسند آنا ہی تھا جاناں
ہمیں اپنے سے اتنی دور تک جانا ہی تھا جاناں

بجا ہے خانماں سوز آرزوؤں ، تیرہ امّیدوں،
سراسر خوں شدہ خوابوں ، نوازش گر سرابوں،
ہاں سرابوں کی قَسم یک سر بجا ہے
اب ہمارا جان و دل کے جاوداں ، دل جان رشتے کو
اور اس کی زخم خوردہ یاد تک تو بے نیازانہ
بھُلا دینا ہی اچھا ہے
وہ سرمایا ، وہ دل سے بے بہا تر جاں کا سرمایا
گنوا دینا ہی اچھا ہے
زیانِ جاودانی کے گلہ افروز داغوں کو
بجھا دینا ہی اچھا ہے
تمہارا فیصلہ جاناں! مجھے بےحد پسند آیا۔ ۔ ۔

تم مجھے بتاؤ تو۔۔۔


تم نے مجھ کو لکھا ہے، میرے خط جلا دیجے
مجھ کو فکر رہتی ہے آپ انہیں گنوا دیجے
آپ کا کوئی ساتھی دیکھ لے تو کیا ہو گا
دیکھیے میں کہتی ہوں یہ بہت بُرا ہو گا

o
میں بھی کچھ کہوں تم سے اے مری فروزینہ
زشکِ سروِ سیمینا
اے بہ نازُکی مینا
اے بہ جلوہ آئینہ
میں تمہارے ہر خط کو لوحِ دل سمجھتا ہوں
لوحِ دل جلا دوں کیا
سطر سطر ہے ان کی، کہکشاں خیالوں کی
کہکشاں لُٹا دوں کیا
جو بھی حرف ہے ان کا ، نقشِ جانِ شیریں ہے
نقشِ جاں مٹا دوں کیا
ان کا جو بھی نقطہ ہے، ہے سوادِ بینائی
میں انہیں گنوا دوں کیا
لوحِ دل جلا دوں کیا
کہکشاں لُٹا دوں کیا
نقشِ جاں مٹا دوں کیا
o
مجھ کو ایسے خط لکھ کر اپنی سوچ میں شاید
جرم کر گئی ہو تم
اور خیال آنے پر اس سے ڈر گئی ہو تم
جُرم کے تصور میں گر یہ خط لکھے تم نے
پھر تو میری رائے میں جُرم ہی کئے تم نے
اے مری فروزینہ!
دل کی جانِ زرّینا!
رنگ رنگ رنگینا!
بات جو ہے وہ کیا ہے
تم مجھے بتاؤ تو ۔۔۔۔۔
میں تمہیں نہیں سمجھا
تم سمجھ میں آؤ تو
جُرم کیوں کیے تم نے
خط ہی کیوں لکھے تم نے

اجنبی شام


دھند چھائی ہوئی ہے جھیلوں پر
اُڑ رہے ہیں پرند ٹیلوں پر
سب کا رُخ ہے نشیمنوں کی طرف
بستیوں کی طرف بنوں کی طرف
اپنے گلوں کو لے کر چرواہے
سرحدی بستیوں میں جا پہنچے
دلِ ناکام! میں کہاں جاؤں؟
دلِ ناکام! میں کہاں جاؤں؟

اس رائیگانی میں



سو وہ آنسو ہمارے آخری آنسو تھے
جو ہم نے گلے مل کر بہائے تھے
نہ جانے وقت ان آنکھوں سے پھر کس طور پیش آیا
مگر میری فریب وقت کی بہکی ہوئی آنکھوں نے
اس کے بعد بھی
آنسو بہائے ہیں
مرے دل نے بہت سے دکھ رچائے ہیں
مگر یوں ہے کہ ماہ و سال کی اس رائیگانی میں
مری آنکھیں
گلے ملتے ہوئے رشتوں کی فرقت کے وہ آنسو