اپنی آنکھوں میں اب رت جگے ہیں نہ خواب
کیا قیامت پڑی، کچھ خبر ہی نہیں
راکھ سا ڈھیر ہے جانے قدموں میں کیا
جانے کیا جل بجھا
کوئی چنگاری سسکی، نہ نالہ سرا کوئی شعلہ ہوا
کچھ دھواں بھی نہ تھا
جانے کیا جل بجھا
راکھ سا ڈھیر ہے جانے قدموں میں کیا
اس اداسی کی ویراں سرائے کا مکیں
جز میرے کوئی تھا بھی نہیں !
جز میرےم اس جگہ !
راکھ سی یہ، ! نہیں
میں نہیں، میں نہیں، میں نہیں !
میں ہی کیا؟
کوئی آواز دے
مجھ کو آواز دے
کوئی ہے اس جگہ، جو پکارے مجھے ؟
کیا خبر اک شرر ہو ابھی راکھ میں
اس سے پہلے
بکھر جائے میرا وجود
اس سے پہلے کہ ٹھوکر ہوا کی لگے
ایک آواز کی بوند مجھ پر پڑے
میں بھی ققنس کے مانند پھر جی اٹھوں
کوئی آواز دے
ایسی آواز جو پھر جِلا دے مجھے
کوئی ہے، کوئی ہے، کوئی ہے ؟
طارق بٹ