Dast-e-Taqdeer Se Har Shakhs Nay Hissa Paya,Mere Hissay Main Teray Saath Ki Hasrat Aai...!!

Tuesday, July 17, 2012

دل منافق تھا، شب ِ ھجر میں سویا کیسے

دل منافق تھا، شب ِ ھجر میں سویا کیسے
اور جب تجھ سے ملا، ٹوٹ کے رویا کیسے

زندگی میں بھی غزل کا ہی قرینہ رکھا
خواب در خواب تیرے غم کو پرویا کیسے

اب تو چہروں پہ بھی کتبوں کا گماں ھوتا ھے
آنکھیں پتھرائی ھوئی ھیں لب ِ گویا کیسے

دیکھ اب قرب کا موسم بھی نہ سر سبز لگے
ھجر ھی ھجر مراسم میں سمویا کیسے

ایک آنسو تھا کہ دریائے ندامت تھا فراز
دل سے بے باک شناور کو ڈبویا کیسے

...اب رفتگاں کی یاد کا کچھ تو پتا بھی دے

اب رفتگاں کی یاد کا کچھ تو پتا بھی دے
اے شام دُکھ دیا ہے تو پھر حوصلہ بھی دے

چبھتے ہیں اب تو اشک بھی رہ رہ کے آنکھ میں
موجِ ہوائے شب یہ چراغاں بجا بھی دے

کیا قہر ہے فلک کا ستم بھی زمیں پہ ہو
گرنے لگے فلک تو زمیں آسرا بھی دے

مجھ کو تو حرفِ حق کی طلب تھی سو پا لیا
میں نے یہ کب کہا تھا مجھے کربلا بھی دے

اب کچھ تو کم ہو دِل زدگاں کی فسردگی
اے درد رات ڈھلنے لگی مُسکرا بھی دے

ہر فرد ابتدا کی مسافت میں شل ہُوا
کوئی تو ہو جو اب خبرِ انتہا بھی دے

کب تک ہنسے گی تجھ پہ یہ محرومیوں کی شام؟
وہ شخص بے وفا تھا اُسے اب بھلا بھی دے

"محسن" سا اہلِ دِل تو دِکھا اپنے شہر میں
"محسن" تو ہنس کے زخم بھی کھائے دُعا بھی دے

بُت کدے جا کے کسی بت کو بھی سجدہ کرتے

بُت کدے جا کے کسی بت کو بھی سجدہ کرتے
ہم کہاں سوچ بھی سکتے تھے کے ایسا کرتے

عمر بھر کچھ بھی تو اپنے لیے ہم نے کیا!
آج فرصت جو ملی ہم کو تو سوچا، کرتے

ہم تو اس کھیل کا حصہ تھے ازل سے شاید
سو تماشہ جو نہ بنتے تو تماشہ کرتے

دل کو تسکین ہی مل جاتی ذرا سی اس سے
نہ نبھاتے چلو تم کوئی تو وعدہ کرتے

جوڑنے میں تو یہ پوریں بھی لہو کر ڈالیں
کرچیوں کو جو نہ چھوتے تو یہ اچھا کرتے

بھول جانے کا ارادہ بھی ارادہ ہی رہا
جان پر بن ہی تو جاتی جو ہم ایسا کرتے

اس اماوس نے کیے قتل کئی چاند بتول
ہم اُجالے کی کہاں اِس سے تمنا کرتے

وہ چاند

وہ چاند کہ روشن تھا سینوں میں نگاہوں میں
لگتا ہے اداسی کا اک بڑھتا ہوا ہالہ
پوشاکِ تمنا کو
آزادی کے خلعت کو
افسوس کہ یاروں نے
الجھے ہوئے دھاگوں کا اک ڈھیر بنا ڈالا
وہ شور ہے لمحوں کا، وہ گھور اندھیرا ہے
تصویر نہیں بنتی، آواز نہیں آتی
کچھ زور نہیں چلتا، کچھ پیش نہیں جاتی
اظہار کو ڈستی ہے ہر روز نئی اُلجھن
احساس پہ لگتا ہے ہر شام نیا تالہ
ہے کوئی دل بینا، ہے کوئی نظر والا.. !

امجد اسلام امجد

آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ

آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ
دکھ سے بھر پور دن تمام ہوئے
اور کل کی خبر کسے معلوم
دوش و فردا کی مٹ چکی ہیں حدود
ہو نہ ہو اب سحر، کسے معلوم؟
زندگی ہیچ! لیکن آج کی رات
ایزدیت ہے ممکن آج کی رات
آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ

اب نہ دہرا فسانہ ہائے الم
اپنی قسمت پہ سوگوار نہ ہو
فکرِ فردا اتار دے دل سے
عمر رفتہ پہ اشکبار نہ ہو
عہدِ غم کی حکایتیں مت پوچھ
ہو چکیں سب شکایتیں مت پوچھ
آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ !

فیض احمد فیض

شعوُر میں، کبھی احساس میں بساؤں اُسے


شعوُر میں، کبھی احساس میں بساؤں اُسے
مگر مَیں چار طرف بے حجاب پاؤں اُسے

اگرچہ فرطِ حیا سے نظر نہ آؤں اُسے
وہ رُوٹھ جائے تو سو طرح سے مناؤں اُسے

طویل ہجر کا یہ جبر ہے، کہ سوچتا ہوں
جو دل میں بستا ہے، اب ہاتھ بھی لگاؤں اُسے

اُسے بلا کے مِلا عُمر بھر کا سناّٹا
مگر یہ شوق، کہ اِک بار پھر بلاؤں اُسے

اندھیری رات میں جب راستہ نہیں مِلتا
مَیں سوچتا ہوں، کہاں جا کے ڈھوُنڈ لاؤں اُسے

ابھی تک اس کا تصوّر تو میرے بس میں ہے
وہ دوست ہے، تو خدا کِس لیے بناؤں اُسے

ندیم ترکِ محبت کو ایک عُمر ہوئی
مَیں اب بھی سوچ رہا ہوں، کہ بُھول جاؤں اُسے

احمد ندیم قاسمی

یہ اگر انتظام ہے ساقی

یہ اگر انتظام ہے ساقی
پھر ہمارا سلام ہے ساقی

آج تو اذن عام ہے
رات رندوں کے نام ہے ساقی

میرے ساغر میں رات اُتری ہے
چاند تاروں کا جام ہے ساقی

ایک آئے گا،ایک جائے گا
مے کدے کا نظام ہے ساقی

جام ٹوٹے ،صراحیاں ٹوٹیں
یہ بھی اک قتل عام ہے ساقی

تیرے ہاتھوں سے پی رہاہوں شراب
مے کدہ میرے نام ہے ساقی

(بشیر بدر)

....اک یاد

اک یاد قدیمی گلیوں میں
اک درد پرانا رستے میں
اک رنگ انوکھا کلیوں میں
اک پھول عجب گل دستے میں
اک گیت نباتی پتوں پر
اک بیل ستوں سے لپٹی ہے
اک صبح ازل سے چمکی ہے
اک شام ابد تک ٹھہری ہے
اک چاند رکا ہے کھڑکی پر
اک رات بہت ہی گہری ہے
اک دشت کا سینہ چھلنی ہے
اک ہاتھ پڑا ہے خنجر پر
اک زخم لگا ہے مٹی کو
اک سبز ردا سی بنجر پر
اک ہار گلابی بانہوں کا
اک برگد بوڑھی صدیوں کا
اک برزخ دھندلے خوابوں کا
اک عالم جاگتی نیندوں کا
اک عمر کا سارا قصہ ہے
دکھ درد خوشی کا حصہ ہے

(نصیر احمد ناصر)

...روح تک نمی نہیں آتی

روح تک نمی نہیں آتی
آگے پیچھے دائیں بائیں
صحرا، خاموشی کا بے انت صحرا
منہ چڑاتی ہوئی
آنکھوں اور سانسوں میں
بھری ہوئی بےچارگی۔۔۔ آگے پیچے دائیں بائیں
کچھ کہنا ہے
کچھ کہنا ہے مگر لفظ نہیں ہیں
درد بہانا ہے
درد بہانا ہے بنجر دل کی زمیں
آنکھ تک نمی نہیں آنے دیتی
دل کی پتھریلی زمیں پر
اُمیدیں خواہشیں اوندے منہ پڑی ہیں
زندگی جیسے
دھوپ کی شدّت سے جُھلسی کوئی ٹوٹی شاخ
کوئی راکھ۔۔ بے انت بکھری ہوئی
کوئی ٹوٹا پیالہ۔۔ کوئی ٹوٹا پیالہ۔۔۔۔۔

Naheed Virk