وہ زود رنج منانے بھی تو نہیں دیتا
جو دل پہ گزری، بتانے بھی تو نہیں دیتا
گو اس نے خار بچھائے نہیں ہیں رستے میں
مگر وہ اُن کو ہٹانے بھی تو نہیں دیتا
یہ زخم اُس نے لگائے نہیں مگر سوچو
وہ ان کے داغ مٹانے بھی تو نہیں دیتا
دھیان اُس کا ہٹے بھی تو کس طرح سے ہٹے
وہ اپنی یاد بُھلانے بھی تو نہیں دیتا
پیام آئے کبھی اُس کا یہ نہیں ممکن
دل اُس کے شہر کو جانے بھی تو نہیں دیتا
وہ تیرگی کا مخالف بنا تو ہے لیکن
چراغ گھر میں جلانے بھی تو نہیں دیتا
اُسی کی ذات کا ہر پل طواف کرتے ہیں
دل ہم کو اور ٹھکانے بھی تو نہیں دیتا
جو ہم پہ شرک کے فتوے لگا رہا ہے بتول!
وہ در سے سر کو اٹھانے بھی تو نہیں دیتا
فاخرہ بتول