Dast-e-Taqdeer Se Har Shakhs Nay Hissa Paya,Mere Hissay Main Teray Saath Ki Hasrat Aai...!!

Saturday, November 24, 2012

وہ زود رنج منانے بھی تو نہیں دیتا

وہ زود رنج منانے بھی تو نہیں دیتا
جو دل پہ گزری، بتانے بھی تو نہیں دیتا

گو اس نے خار بچھائے نہیں ہیں رستے میں
مگر وہ اُن کو ہٹانے بھی تو نہیں دیتا

یہ زخم اُس نے لگائے نہیں مگر سوچو
وہ ان کے داغ مٹانے بھی تو نہیں دیتا

دھیان اُس کا ہٹے بھی تو کس طرح سے ہٹے
وہ اپنی یاد بُھلانے بھی تو نہیں دیتا

پیام آئے کبھی اُس کا یہ نہیں ممکن
دل اُس کے شہر کو جانے بھی تو نہیں دیتا

وہ تیرگی کا مخالف بنا تو ہے لیکن
چراغ گھر میں جلانے بھی تو نہیں دیتا

اُسی کی ذات کا ہر پل طواف کرتے ہیں
دل ہم کو اور ٹھکانے بھی تو نہیں دیتا

جو ہم پہ شرک کے فتوے لگا رہا ہے بتول!
وہ در سے سر کو اٹھانے بھی تو نہیں دیتا

فاخرہ بتول

دنیاکی طلب نہیں مگر یہ حسرت ہے ہماری


میری آنکھوں میں اتر آئو، انہں سمندر کر دو
کچھ دیر ہی سہی محبت کی نظر کر دو

ٹوٹ کے ملو کہ ارمان نہ رہ جائے کوئی
یوں محبت کے ہر لمحے کو امر کر دو

ہم پہ نہ آئے کوئی قیامت سا وقت
بڑی مشکل ہے جدائی اسے مختصر کر دو

جن کے نور سےمل جائے بینائی ہمیں بھی
اپنے خوابوں کو میری آنکھوں کی نظر کر دو

دنیاکی طلب نہیں مگر یہ حسرت ہے ہماری
اپنی بانہوں میں لو،دنیا سے بے خبر کر دو

ہم نے چاہا بس اک شخص ہمارا ہوتا


شام کو پرندوں کی طرح لوٹ آتے ہم
منتظر اگر کوئی ہمارا ہوتا
چاند تاروں کی طلب کسے تھی
بس روشنی کے لئیے اک ستارہ ہوتا
ہم میں شائد کوئی کمی تھی ورنہ
ضرور کوئی طرفدار ہمارا ہوتا
دنیا کے لوگوں کی تمنا کسے تھی
ہم نے چاہا بس اک شخص ہمارا ہوتا

کوئی کسی کا نہیں بنتا اس دنیا میں

ہم نے یاد کیا بہت اسے بھلانے کے بعد
وہ پھر روٹھ گیا مجھ سے منانے کے بعد

اس کے دل میں تھی عداوت میرے لئے
میں تو خوش تھا اسے پانے کے بعد

پہلے تو کرتا تھا بہت پیار کی باتیں
پھر رلایا بھی بہت اس نے مجھے ہنسانے کے بعد

محبت کرتا تھا وہ مجھ سے وقت گزاری کے لئے
اپنا لیا کسی اور کو اس نے مجھے ٹھکرانے کے بعد

کوئی کسی کا نہیں بنتا اس دنیا میں
درخت بھی گرا دیتے ہیں پتے سوکھ جانے کے بعد


کیا جانیے کیوں اُداس تھی وہ

کیا جانیے کیوں اُداس تھی وہ 
کب اتنی ادا شناس تھی وہ 

ہر خواب سے بے طرح ہراساں
ہر خواب کے آس پاس تھی وہ

سرشاری شوق و بے نیازی
ہر رنگ میں خوش لباس تھی وہ

پیروں میں ہزار بیڑیاں تھیں
اور سرد و سمن کی آس تھی وہ

جیسے شب ہجر کی سحر ہو
کچھ ایسی ہی بے قیاس تھی وہ

چھیڑی تھی ادا نے آب بیتی
یوں جیسے خود اپنے پاس تھی وہ

آنکھوں آنکھوں میں یہ ان سے رابطہ اچھا لگا

آنکھوں آنکھوں میں یہ ان سے رابطہ اچھا لگا
اس طرح سے گفتگو کا سلسلہ اچھا لگا


آنکھ میں آنسو لبوں پر سسکیاں اور دل میں غم
مجھ کو پھر اے دوست تیرا روٹھنا اچھا لگا


یہ بھی اچھا ہے نبھائی غیر سے اس نے وفا
بے وفائی میں بھی مجھ کو بے وفا اچھا لگا


دور تک مجھ کو ادا اسکی نشہ دیتی رہی
وقت رخصت اس کا مڑ کے دیکھنا اچھا لگا


اس نے ٹھکرایا تو سارے دوست بیگانے ہوئے
ہم کو اپنی موت کا پھر آسرا اچھا لگا


اپنے آنچل پر سجاتے وہ رہے رات بھر
میرے اشکوں کا رواں یہ سلسلہ اچھا لگا


وہ کسی کی یاد میں سوئے نہیں رات بھر
نیند سی بوجھل سی آنکھوں میں نشہ اچھا لگا


مجھ کو ہر ٹکڑے میں ناصر وہ نظر آنے لگے
ٹوٹ کر مجھ کو جب ہی تو آئینہ اچھا لگا

جارہے ہو اگردور مجھ سے صنم


جارہے ہو اگردور مجھ سے صنم
پھرمیرے پاس آنا نہیں
یہ بھی ممکن نہیں کہ میں پلٹ نہ سکوں
اس لیے اتنا وعدہ کرومجھ کو آواز دینا نہیں
مل بھی جائیں اگرہم تمہیں اگر راہ میں
پھیر لینا نظرپر ملانا نہیں
دیکھ لو بھی اگرتم ہمیں بھول سے
اپنی آنکھوں میں تم اشک لانا نہیں
دل سے تو کو تم کر چکے ہو جدا
آنکھ سے بھی گرانا نپہں
تم نے مانگی دعاہمیں ملے ہر خوشی
تم ہی میری خوشی پر ملے کیوں نہ ہمیں
تم نے لی ہے قسم غم نہ کرنا کبھی
تم سکھا دو ذرا مسکرانا ہمیں
تم نے کہہ تو دیا یاد کرنا نہیں
خواب میں تم بھی آنا نہیں

مجھے تم یاد آتے ہو



مجھے تم یاد آتے ہو
خیالوں میں
سوالوں میں
محبت کے حوالوں میں
تمہیں آواز دیتا ہوں
تمہیں واپس بلاتا ہوں
جب کوئی نظم کہتا ہوں
اسے عنوان دیتا ہوں
مجھے تم یاد آتے ہو
تمہاری یاد ہونے سے
کوئی سرگوشی کرتا ہے
یہ پلکیں بھیگ جاتی ہیں
دو آنسو ٹوٹ گرتے ہیں
میں پلکوں کو جھکاتا ہوں
بظاہر مسکراتا ہوں
فقط اتنا ہی کہتا ہوں
مجھے کتنا ستاتے ہو
۔
۔
مجھے کیوں یاد آتے ہو
مجھے کیوں یاد آتے ہو

Thursday, November 15, 2012

اِک اِک حرف میں سوچ کی خوشبو، دل کا اُجالا ہو تو کہو


شمعِ غزل کی لَو بن جائے، ایسا مصرعہ ہو تو کہو
اِک اِک حرف میں سوچ کی خوشبو، دل کا اُجالا ہو تو کہو

رازِ محبت کہنے والے لوگ تو لاکھوں ملتے ہیں
رازِ محبت رکھنے والا، ہم سا دیکھا ہو تو کہو!

کون گواہی دے گا اُٹھ کر جھوٹوں کی اس بستی میں
سچ کی قیمت دے سکنے کا تم میں یارا ہو تو کہو!

ویسے تو ہر شخص کے دل میں ایک کہانی ہوتی ہے
ہجر کا لاوا، غم کا سلیقہ، درد کا لہجہ ہو تو کہو

امجد صاحب آپ نے بھی تو دُنیا گھوم کے دیکھی ہے
ایسی آنکھیں ہیں تو بتاؤ! ایسا چہرا ہو تو کہو!

کوئی ایک شخص تو یوں ملے کہ سکوں ملے

کوئی ایک شخص تو یوں ملے کہ سکوں ملے
کوئی ایک لفظ تو ایسا ھو کہ قرار ھو
کہیں ایسی رت بھی ملے ھمیں جو بہار ھو
کبھی ایسا وقت بھی آئے کہ ھمیں پیار ھو!

کوئی ایک شخص تو یوں ملے ۔۔۔
کہ چراغِ جاں اسے نور دے، اسے تاب دے، بنے کہکشاں
کائی غم ھو جس كو كہا کریں غمِ جاوداں
کوئی یوں قدم کو ملائے کہ بنے کارواں

کوئی ایک شخص تو یوں ملے ۔۔۔ کہ قرار ھو
میری راہِ گزرِ خیال میں کوئی پھول ھو
میں سفر میں ھوں مرے پاؤں پہ کبھی دھول ھو
مجھے شوق ھے مجھ سے بھی کبھی کوئی بھول ھو
!غمِ ھجر ھو، شبِ تار ھو، بڑا طول ھو۔۔۔

کوئی ایک شخص تو یوں ملے ۔۔۔ کہ قرار ھو
کہ جو عکسِ ذات ھو، ھو بہو میرا آئینہ، میرے رو برو
کوئی ربط کہ جس میں نا مَیں، نہ تُو
!سرِ خامشی کوئی گفتگو ۔۔۔

کوئی ایک شخص تو یوں ملے کہ سکوں ملے

ہم اہلِ دل کو بڑے ____حوصلوں میں چھوڑ آئے

ہمارے بعد بھی ____رونق رہے گی مقتل میں
ہم اہلِ دل کو بڑے ____حوصلوں میں چھوڑ آئے

سدا سکھی رہیں چہرے وہ ہم جنہیں ‘محسن‘
بجھے گھروں کی کھلی کھڑکیوں میں چھوڑ آئے

محسن نقوی!

سب کے دل سے اُتر گیا ہوں میں


اِک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں
سب کے دل سے اُتر گیا ہوں میں

کیسے اپنی ہنسی کو ضبط کروں
سُن رہا ہوں کہ گھر گیا ہوں میں

کیا بتاؤں کہ مر نہیں پاتا
جیتے جی جب سے مر گیا ہوں میں
اب ہے اپنا سامنا درپیش
ہر کسی سے گزر گیا ہوں میں

وہی ناز و ادا ، وہی غمزے
سر بہ سر آپ پر گیا ہوں میں

جون ایلیا

اس کو اتنا بھی نہ چاہو کہ خدا ہو جائے

اس کی ہر بات مرے دل کو روا ہو جائے
وہ مگر اپنی انا سے تو رہا ہو جائے

بات ہم دل کی چھپائیں گے نہیں اب ہرگز
کوئی ہوتا ہے خفا گر تو خفا ہو جائے

جتنے ممکن تھے جتن ہم نے کئے ہیں لیکن
وہ جدائی پہ مصر ہے تو جدا ہو جائے

پھر سے سیراب کرے روح مری ، پیار ترا
دل کے صحراؤں پہ ساون کی گھٹا ہو جائے

ہم نے سوچا تھا تجھے بھول کے جینے کا مگر
دل کی مرضی ہے ترے غم میں فنا ہو جائے

ہم ترے غم سے تعلق کو نبھائیں گے سدا
چاہےاب ہم کو یہ جینا بھی سزا ہو جائے

ہم ترے حکم کو تسلیم کیئے لیتے ہیں
اس سے پہلے کہ کوئی اور خطا ہو جائے

کچھ تو کلثوم توازن بھی محبت میں رہے
اس کو اتنا بھی نہ چاہو کہ خدا ہو جائے