کیا جانیے کیوں اُداس تھی وہ
کب اتنی ادا شناس تھی وہ
ہر خواب سے بے طرح ہراساں
ہر خواب کے آس پاس تھی وہ
سرشاری شوق و بے نیازی
ہر رنگ میں خوش لباس تھی وہ
پیروں میں ہزار بیڑیاں تھیں
اور سرد و سمن کی آس تھی وہ
جیسے شب ہجر کی سحر ہو
کچھ ایسی ہی بے قیاس تھی وہ
چھیڑی تھی ادا نے آب بیتی
یوں جیسے خود اپنے پاس تھی وہ