Dast-e-Taqdeer Se Har Shakhs Nay Hissa Paya,Mere Hissay Main Teray Saath Ki Hasrat Aai...!!

Monday, April 25, 2011

...وہ صُورت

ہر ایک بات نہ کیوں زہر سی ہماری لگے
کہ ہم کو دستِ زمانہ کے زخم کاری لگے

...اُداسیاں ہوں مسلسل، تو دِل نہیں روتا
کبھی کبھی ہو تو یہ کیفیت بھی پیاری لگے

بظاہر ایک ہی شب ہے، فراقِ یار مگر
کوئی گُزارنے بیٹھے تو عُمر ساری لگے

علاج، اِس دلِ درد آشنا کا کیا کیجئے؟
کہ تِیر بن کے جِسے حرفِ غمگُساری لگے

ہماری پاس بھی بیٹھو، بس اِتنا چاہتے ہیں
ہمارے ساتھ طبیعت اگر تمہاری لگے

فراز تیرے جنُوں کا خیال ہے ورنہ
یہ کیا ضرور وہ صُورت سبھی کو پیاری لگے

احمد فراز

...غمِ عشق

میں نے ہر چند غمِ عشق کو کھونا چاہا
غمِ الفت غمِ دنیا میں سمونا چاہا
وہی افسانے مری سمت رواں ہیں اب تک
وہی شعلے مرے سینے میں نہاں ہیں اب تک
وہی بے سود خلش ہے مرے سینے میں ہنوز
وہی بیکار تمنائیں جواں ہیں‌اب تک
وہی گیسو مری راتوں پہ ہیں بکھرے بکھرے
وہی آنکھیں مری جانب نگراں ہیں اب تک
کثرتِ غم بھی مرے غم کا مداوا نہ ہوئی!
میرے بے چین خیالوں کو سکون مل نہ سکا
دل نے دنیا کے ہر اک درد کو اپنا تو لیا
مضمحل روح کو اندازِ جنوں مل نہ سکا
میری تخئیل کا شیرازۂ برہم ہے وہی
میرے بجھتے ہوئے احساس کا عالم ہے وہی
وہی بے جان ارادے وہی بے رنگ سوال
وہی بے روح کشاکش وہی بے چین خیال
آہ اس کشمکشِ صبح و مسا کا انجام
میں بھی ناکام مری سعی عمل بھی ناکام

شاعر ساحر لدھیانوی

....ناکام محبت کی کہانی

میری ناکام محبت کی کہانی مت چھیڑ
اپنی مایوس امنگوں کا فسانہ نہ سنا
زندگی تلخ سہی ، زہر سہی، سم ہی سہی
دردو آزار سہی، جبر سہی، غم ہی سہی
لیکن اس درد و غم و جبر کی وسعت کو تو دیکھ
ظلم کی چھاؤں میں دم توڑتی خلقت کو تو دیکھ
اپنی مایوس امنگوں کا فسانہ نہ سنا
میری ناکام محبت کی کہانی مت چھیڑ
جلسہ گاہوں میں یہ دہشت زدہ سہمے انبوہ
رہ گزاروں پہ فلاکت زدہ لوگوں کا گروہ
بھوک اور پیاس سے پژمردہ سیہ فام زمیں
تیرہ و تار مکاں، مفلس و بیمار مکیں
نوعِ انساں میں یہ سرمایہ و محنت کا تضاد
امن و تہذیب کے پرچم تلے قوموں کا فساد
ہر طرف آتش و آہن کا یہ سیلابِ عظیم
نت نئے طرز پہ ہوتی ہوئی دنیا تقسیم
لہلہاتے ہوئے کھیتوں پہ جوانی کا سماں
اور دہقان کے چھپر میں نہ بتی نہ دھواں
یہ فلک بوس ملیں دلکش و سمیں بازار
یہ غلاظت پہ چھپٹتے ہوئے بھوکے نادار
دور ساحل پہ وہ شفاف مکانوں کی قطار
سرسراتے ہوئے پردوں میں سمٹتے گلزار
درو دیوار پہ انوار کا سیلابِ رواں
جیسے اک شاعرِ مدہوش کے خوابوں کا جہاں
یہ سبھی کیوں ہے یہ کیا ہے مجھے کچھ سوچنے دے
کون انساں کا خدا ہے مجھے کچھ سوچنے دے
اپنی مایوس امنگوں کا فسانہ نہ سنا
میری ناکام محبت کی کہانی مت چھیڑ

شاعر ساحر لدھیانوی

...خودداریوں کےخون

خودداریوں کےخون کو ارزاں نہ کرسکے
ہم اپنے جوہروں کو نمایاں نہ کر سکے
ہو کر خرابِ مے ترے غم تو بھلا دیئے
لیکن غمِ حیات کا درماں نہ کر سکے
ٹوٹا طلسمِ عہد محبّت کچھ اس طرح
پھر آرزو کی شمع فروزاں نہ کر سکے
ہر شے قریب آکے کشش اپنی کھو گئی
وہ بھی علاجِ شوق گریزاں نہ کرسکے
کس درجہ دل شکن تھے محبت کے حادثے
ہم زندگی میں پھر کوئی ارماں نہ کرسکے
مایوسیوں نے چھین لیے دل کے ولولے
وہ بھی نشاطِ روح کا ساماں نہ کر سکے

شاعر ساحر لدھیانوی

....میرے سامنے

اِنکار کیا کرے گی ہَوا میرے سامنے
گھر کا ہر اِک چراغ بجھا میرے سامنے

یاد آ نہ جائے مقتلِ یاراں کی رات پھر
نیزے پہ کوئی سَر نہ سجا میرے سامنے

اُس کے خلوص میں بھی ضرورت کا رنگ تھا
وہ دے رہا تھا مجھ کو دعا میرے سامنے!

مجھ سے بچھڑ کے خط میں لکھی اس نے دل کی بات
کیوں اُس کو حوصلہ نہ ہوُا میرے سامنے؟

میرے لہُو سے تیرا لبادہ بھی تر ہُوا
اب میرا سوگ توُ نہ مَنا میرے سامنے

دل پر ہے نقش لطفِ عزیزاں کا سلسلہ
سب پر کرم وہ میرے سوا میرے سامنے

وہ جھوٹ ہی سہی مجھے یوں بھی عزیز ہے
کہنا تھا جو بھی اُس نے کہا میرے سامنے

جیسے میں آشنائے چمن ہی نہ تھا کبھی
گزری ہے یوں بھی آج صبا میرے سامنے

وہ لمحئہ نزولِ قیامت سہی مگر !
اِک دن تو آئے میرا خدا میرے سامنے

کل تک جو آئینے سے بھی نازک مزاج تھا
محسن وہ شخص ٹوٹ گیا میرے سامنے

....نایاب ہیں ہم

ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ۔ ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم ۔ اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
میں حیرت و حسرت کا مارا خاموش کھڑا ہوں ساحل پر
دریائے محبت کہتا ہے آ کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم
اے درد بتا کچھ تو ہی پتہ ۔ اب تک یہ معمہ حل نہ ہوا
ہم میں ہے دل بے تاب نہاں یا آپ دل بےتاب ہیں ہم
لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں، منزل پہ پہنچتے ہیں دو ایک
اے اہل زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہوں کمیاب ہیں ہم
مرغان قفس کو پھولوں نے اے شاد یہ کہلا بھیجا ہے
آجاو! جو تم کو آنا ہو ایسے میں ابھی شاداب ہیں ہم

شاعر شاد عظیم آبادی

...حسرت

ایک دیِا میں جلا کے بیٹھا ہوں
دردِدل میں بسا کے بیٹھا ہوں

کوئی مونس نہ میرا ساتھی ہے
میں تو خود کو گنوا کے بیٹھا ہوں

نہ ہوئی میرے غم کی شنوائی
سارے آنسؤ بہا کے بیٹھا ہوں

لفظ میری دُعا نہیں بنتے
ہاتھ دونوں اٹھا کے بیٹھا ہوں

موت آئی ہے، وہ نہیں آیا
کب سے اُس کو بلا کے بیٹھا ہوں

وہ بھی شاید اِدھر نکل آئے
ایک دیا میں جلا کے بیٹھا ہوں

اُس سے ملنے کی آج بھی ناصر
دل میں حسرت جگا کے بیٹھا ہوں

...اِک ہنر ہے

اِک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں
سب کے دل سے اُتر گیا ہوں میں

کیسے اپنی ہنسی کو ضبط کروں
سُن رہا ہوں کہ گھر گیا ہوں میں

کیا بتاؤں کہ مر نہیں پاتا
جیتے جی جب سے مر گیا ہوں میں

اب ہے اپنا سامنا درپیش
ہر کسی سے گزر گیا ہوں میں

وہی ناز و ادا ، وہی غمزے
سر بہ سر آپ پر گیا ہوں میں

....تھک گیا ہوں

اے صبح! میں اب کہاں رہا ہوں
خوابوں ہی میں صرف ہو چکا ہوں

کیا ہے جو بدل گئی ہے دنیا
میں بھی تو بہت بدل گیا ہوں

میں جُرم کا اعتراف کر کے
کچھ اور ہے جو چھُپا گیا ہوں

میں اور فقط اسی کی تلاش
اخلاق میں جھوٹ بولتا ہوں

رویا ہوں تو اپنے دوستوں میں
پر تجھ سے تو ہنس کے ہی ملا ہوں

اے شخص! میں تیری جستجو میں
بےزار نہیں ہوں، تھک گیا ہوں

...جی جانتا ہے

لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے

تم نہیں جانتے اب تک یہ تمہارے انداز
وہ میرے دل میں سمائے ہیں کہ جی جانتا ہے

انہی قدموں نے تمھارے انہی قدموں کی قسم
خاک میں اتنی ملائے ہیں کہ جی جانتا ہے

جو زمانے کے ستم ہیں ، وہ زمانہ جانے
تو نے دل اتنے ستائے ہیں کہ جی جانتا ہے

مسکراتے ھوئے وہ مجمعء اغیار کے ساتھ
آج یوں بزم میں آئے ہیں کہ جی جانتا ہے

سادگی، بانکپن، اغماض، شرارت، شوخی
تو نے انداز وہ پائے ہیں کہ جی جانتا ہے

کعبہ و دیر میں پتھرا گئیں دونوں آنکھیں
ایسے جلوے نظر آئے ہیں کہ جی جانتا ہے

دوستی میں تری درپردہ ہمارے دشمن
اس قدر اپنے پرائے ہیں کہ جی جانتا ہے

داغ ِوارفتہ کو ہم آج تیرے کوچے سے
اس طرح کھینچ کے لائے ہیں کہ جی جانتا ہے