اِنکار کیا کرے گی ہَوا میرے سامنے
گھر کا ہر اِک چراغ بجھا میرے سامنے
یاد آ نہ جائے مقتلِ یاراں کی رات پھر
نیزے پہ کوئی سَر نہ سجا میرے سامنے
اُس کے خلوص میں بھی ضرورت کا رنگ تھا
وہ دے رہا تھا مجھ کو دعا میرے سامنے!
مجھ سے بچھڑ کے خط میں لکھی اس نے دل کی بات
کیوں اُس کو حوصلہ نہ ہوُا میرے سامنے؟
میرے لہُو سے تیرا لبادہ بھی تر ہُوا
اب میرا سوگ توُ نہ مَنا میرے سامنے
دل پر ہے نقش لطفِ عزیزاں کا سلسلہ
سب پر کرم وہ میرے سوا میرے سامنے
وہ جھوٹ ہی سہی مجھے یوں بھی عزیز ہے
کہنا تھا جو بھی اُس نے کہا میرے سامنے
جیسے میں آشنائے چمن ہی نہ تھا کبھی
گزری ہے یوں بھی آج صبا میرے سامنے
وہ لمحئہ نزولِ قیامت سہی مگر !
اِک دن تو آئے میرا خدا میرے سامنے
کل تک جو آئینے سے بھی نازک مزاج تھا
محسن وہ شخص ٹوٹ گیا میرے سامنے