اکثر شبِ تنہائی میں
کچھ دیر پہلے نیند سے
گزری ہوئی دلچسپیاں
بیتے ہوئے دن عیش کے
بنتے ہیں شمعِ ذندگی
اور ڈالتے ہیں روشنی
میرے دلِ صد چاک پر
وہ بچپن اوروہ سادگی
وہ رونا وہ ہنسنا کبھی
پھر وہ جوانی کے مزے
وہ دل لگی وہ قہقہے
وہ عشق وہ عہدِ و فا
وہ وعدہ اور وہ شکریہ
وہ لذتِ بزمِ طرب
یاد آتے ہیں ایک ایک سب
دل کا کنول جو روز و شب
رہتا شگفتہ تھا سو اب
اسکا یہ ابتر حال ہے
اک سبزۂ پا مال ہے
اک پھو ل کُملایا ہوا
ٹوٹا ہوا بکھرا ہوا
روندا پڑا ہے خاک پر
یوں ہی شبِ تنہائی میں
کچھ دیر پہلے نیند سے
گزری ہوئی ناکامیاں
بیتے ہوئے دن رنج کے
بنتے ہیں شمعِ بےکسی
اور ڈالتے ہیں روشنی
ان حسرتوں کی قبر پر
جوآرزوئیں پہلے تھیں
پھر غم سے حسرت بن گئیں
غم دو ستو ں کی فوت کا
ان کی جواناں موت کا
لے دیکھ شیشسے میں مرے
ان حسرتوں کا خون ہے
جو گرد شِ ایام سے
جو قسمتِ ناکام سے
یا عیشِ غمِ انجام سے
مرگِ بتِ گلفام سے
خود میرے غم میں مر گئیں
کس طرح پاؤں میں حزیں
قابو دلِ بےصبر پر
جب آہ ان احباب کو
میں یاد کر اٹھتا ہوں جو
یوں مجھ سے پہلے اٹھ گئے
جس طرح طائر باغ کے
یا جیسے پھول اور پتیاں
گر جائیں سب قبل از خزاں
اور خشک رہ جائے شجر
اس وقت تنہائی مری
بن کر مجسم بےکسی
کر دیتی ہے پیشِ نظر
ہو حق سااک ویران گھر
ویراں جس کو چھوڑ کے
سب رہنے والے چل بسے
ٹو ٹے کواڑ اور کھڑ کیاں
چھت کے ٹپکنے کے نشاں
پرنالے ہیں روزن نہیں
یہ ہال ہے، آ نگن نہیں
پردے نہیں، چلمن نہیں
اک شمع تک روشن نہیں
میرے سوا جس میں کوئی
جھا نکے نہ بھولے سے کبھی
وہ خانۂ خالی ہے دل
پو چھے نہ جس کو دیو بھی
اجڑا ہوا ویران گھر
یوں ہی شب تنہائی میں
کچھ دیر پہلے نیند سے
گزری ہوئی دلچسپیاں
بیتے ہوئے دن عیش کے
بنتے ہیں شمعِ زندگی
اور ڈالتے ہیں روشنی
میرے دل صد چاک پر
۔۔۔۔نادر کاکوروی