کیسے چھوڑیں اسے تنہائی پر
حرف آتا ہے مسیحائی پر
اس کی شہرت بھی تو پھیلی ہر سُو
پیار آنے لگا رسوائی پر
...
ٹھہرتی ہی نہیں آنکھیں جاناں
تیری تصویر کی زیبائی پر
رشک آیا ہے بہت حُسن کو بھی
قامتِ عشق کی رعنائی پر
سطح کو دیکھ کے اندازے لگیں
آنکھ جاتی نہیں گہرائی پر
ذکر آئے گا جہاں بھونروں کا
بات ہوگی مرے ہرجائی پر
خود کو خوشبو کے حوالے کردیں
پھول کی طرزِ پذیرائی پر