پھرا ہوں سارے زمانے میں در بدر کیسا
میں تیرے بعد بھی زندہ رہا مگر کیسا
وہ جا نتا تھا کہ کچھ روز وہ نہیں تھا تو میں
پکا رتا رہا اُس کو ادھر اُدھر کیسا
نہ اعتبار نہ آ سودگی نہ قرب تیرا
فقط تکلف دیوار و در ہے گھر کیسا
میں جس کے ہجر میں رویا ہوں پاگلوں کی طرح
وہ کل ملا تو ہنسا میرے حال پر کیسا
عزیز تر تھی جسے نیند شام وصل میں بھی
وہ تیرے ہجر میں جاگ ا ہے عمر بھر کیسا
بس ایک شخص کی خاطر بس ایک دل کے لئے
وطن کو تج دیا دیوانگی ، میں گھر کیسا
کہاں کی دوستی ، کیسا فراق ، کون فراز
میں خود کو بھول گیا تجھ کو بھول کر کیسا