رہبری کچھ اس طرح سے راہبر کرتا رہا
کارواں بس دائروں میں ہی سفر کرتا رہا
طول دینے کے لئے تاریکیوں کے دور کو
وہ اجالوں کو برابر مختصر کرتا رہا
لوگ اندھی مفلسی کی آگ میں جلتے رہے
تیز وہ اس پر ہواوٴں کو مگر کرتا رہا
موسمِ لالہ و گل اچھا نہ لگتا تھا اُسے
اس لئے وہ ہر شجر کو بے ثمر کرتا رہا
کاٹ کر اپنی ہی بستی کا ہر اک دستِ ہنر
وہ زمانے بھر میں خُود کو معتبر کرتا رہا
کربلا کرتا رہا برپا وہ سارے شہر میں
دل میں جو آیا وہی شام و سحر کرتا رہا
لے گئیں انور مجھے بھی وہ صلیبِ وقت پر
میں جو تحریریں زمانے کی نذر کرتا رہا