تجھ کو دیکھا ہے جو دریا نے اِدھر آتے ہوئے
کچھ بھنور ڈوب گئے آب میں چکراتے ہوئے
ہم نے تو رات کو دانتوں سے پکڑ رکھاہے
چھینا جھپٹی میں اُفق کھلتا گیا جاتے ہوئے
جھپ سے پانی میں اُتر جاتی ہے گلنار شفق
سُرخ ہوجاتے ہیں رُخسار بھی، شرماتے ہوئے
میں نہ ہوں گا تو خزاں کیسے کٹے گی تیری
شوخ پتے نے کہا شاخ سے مُرجھاتے ہوئے
حسرتیں اپنی بلکتیں نہ یتیموں کی طرح
ہم کو آواز ہی دے لیتے ذرا، جاتے ہوئے
سِی لئے ہونٹ وہ پاکیزہ نگاہیں سُن کر
میلی ہو جاتی ہے آواز بھی، دُہراتے ہوئے