گم صم ھوا آواز کا دریا تھا جو اک شخص
پتھر بھی نھیں اب وہ،ستارہ تھا جو اک شخص
شاید وہ کوئی حرف دعا ڈھونڈ رھا تھا
چہروں کو بڑے غور سے پڑھتا تھا جو اک شخص
صحرا کی طرح دیر سے پیاسا تھا وہ شاید
بادل کی طرح ٹوٹ کے برسا تھا جو اک شخص
اے تیز ھوا کوئی خبر اس کے جنوں کی
تنھا سفر شوق پہ نکلا تھا جو اک شخص
ھاتھوں میں چھپائے ھوئے پھرتا ھے کئی زخم
شیشے کے کھلونوں سے بہلتا تھا جو اک شخص
مڑ مڑ کے اسے دیکھنا چاھیں میری آنکھیں
کچھ دور مجھے چھوڑنے آیا تھا جو اک شخص
اب اس نے بھی اپنا لیے دنیا کے قرینے
سائے کی رفاقت سے ڈرتا تھا جو اک شخص
ہر ذہن میں کچھ نقش وفا چھوڑ گیا ھے
کہنے کو بھرے شہر میں تنہا تھا جو اک شخص
منکر ھے وھی اب میری پہچان کا"محسن"
اکثر مجھے خط خون سے لکھتا تھا جو اک شخص