دل میں نہ ہو جرات تو محبت نہیں ملتی
خیرات میں اتنی بڑی دولت نہیں ملتی
کچھ لوگ شہر میں ہم سے بھی خفا ہیں
ہر ایک سے اپنی بھی طبیعت نہیں ملتی
...
دیکھا تھا جسے میں نے کوئی اور تھا شاید
وہ کون ہے جس سے تیری صورت نہیں ملتی
ہنستے ہوئے چہروں سے ہے بازار کی زینت
رونے کی یہاں ویسے بھی فرصت نہیں ملتی
نکلا کرو یہ شمع لئے گھر سے بھی باہر
تنہائی سجانے کو مصیبت نہیں ملتی