یہ جو ہم سفر میں بھی گھر سا اک بناتے ہیں
ریت کے سمندر میں کشتیاں جلاتے ہیں
جن پہ فاختاؤں کے گیت پھول بنتے ہیں
آؤ ان درختوں پر نام لکھ کے آتے ہیں
اس کے لوٹ آنے کا خواب دیکھتی آنکھیں
شام سے دریچے میں رکھ کے بیٹھ جاتے ہیں
پہلے ساتھ چلنے سے دل کو خوف آتا تھا
اور اب بچھڑنے کے وسوسے ڈراتے ہیں
وحشتوں کے صحرا میں کون یہ بتائے گا
کس کو یاد رکھتے ہیں، کس کو بھول جاتے ہیں