خواب کے قیدی رہے تو کچھ نظر آتا نہ تھا
جب چلے تو جنگلوں میں راستہ بنتا گیا
تہمتیں تو خیر قسمت تھیں مگر اس ہجر میں
پہلے آنکھیں بجھ گیئں اور اب چہرہ گیا
ہم وہ محرومِ سفر ہیں دشتِ خواہش میں جنہیں
اک حصارِ درو دیوار میں رکھا گیا
بر ملا سچ کی جہاں تلقین کی جاتی رہی
پھر وہاں جو لوگ سچے تھے انہیں روکا گیا
ہم وہ بے منزل مسافر ہیں جنہیں ہر حال میں
ہم سفر رکھا گیا اور بے نوا رکھا گیا
کھا گیا شوقِ زورِ بزم آرائی اسے
صاحبِ فہم و فراست تھا مگر تنہا گیا