1شامل میرا دشمن صف یاراں میں رھے گا
یہ تیر بھی پیوست رگ جان میں رھے گا
اک رسم جنوں اپنے مقدر میں رھے گی
اک چاک سدا اپنے گریبان میں رھے گا
اک اشک ھے آنکھوں میں سو چمکے گا کہاں تک
یہ چاند زد شام غریباں میں رھے گا
میں تجھ سے بچھڑ کر بھی کہاں تجھ سے جدا ھوں
تو خواب صد دیدہ گریاں میں رھے گا
راتوں کی کوئی رت تیری خوشبو نھیں لائی
یہ داغ بھی دامن بہاراں میں رھے گا
اب کے بھی گزر جائیں گے سب وصل کے لمحے
مصروف کوئی وعدہ و پیماں میں رھے گا
وہ حرف جنوں کہہ نہ سکوں گا جو کہوں بھی
اک راز کی صورت دل امکاں میں رھے گا
"محسن"میں حوادث کی ہواؤں میں گھرا ھوں
کیا نقش قدم دشت و بیابان میں رھے گا