جو دن گزر گئے ہیں ترے التفات میں
میں ان کو جوڑ لوں کہ گھٹا دوں حیات میں
کچھ میں ہی جانتا ہوں جو مجھ پر گزر گئی
دنیا تو لُطف لے گی مرے واقعات میں
میرا تو جرم تذکرہء عام ہے مگر
کچھ دھجیاں ہیں میری زُلیخا کے ہاتھ میں
آخر تمام عمر کی وسعت سما گئی
اک لمحہء گزشتہ کی چھوٹی سے بات میں
اے دل ذرا سی جرأت رندی سے کام لے
کتنے چراغ ٹوٹ گئے احتیاط میں