ایک دیِا میں جلا کے بیٹھا ہوں
دردِدل میں بسا کے بیٹھا ہوں
کوئی مونس نہ میرا ساتھی ہے
میں تو خود کو گنوا کے بیٹھا ہوں
نہ ہوئی میرے غم کی شنوائی
سارے آنسؤ بہا کے بیٹھا ہوں
لفظ میری دُعا نہیں بنتے
ہاتھ دونوں اٹھا کے بیٹھا ہوں
موت آئی ہے، وہ نہیں آیا
کب سے اُس کو بلا کے بیٹھا ہوں
وہ بھی شاید اِدھر نکل آئے
ایک دیا میں جلا کے بیٹھا ہوں
اُس سے ملنے کی آج بھی ناصر
دل میں حسرت جگا کے بیٹھا ہوں