مثال اس کی کہاں ہے زمانے میں
کہ سارے کھونے کے غم پائے ہم نے پانے میں
وہ شکل پگھلی تو ہر شے میں ڈھل گئی جیسے
عجیب بات ہوئی ہے اسے بھلانے میں
جو منتظر نہ ملا وہ تو ہم ہیں شرمندہ
کہ ہم نے دیر لگا دی پلٹ کے آنے میں
لطیف تھا وہ تخیل سے خواب سے نازک
گنوا دیا ہم نے ہی اسے آزمانے میں
سمجھ لیا تھا کبھی ایک سراب کو دریا
پر ایک سکون تھا ہم کو فریب کھانے میں
جُھکا درخت ہوا سے تو آندھیوں نے کہا
زیادہ فرق نہیں جھک کے ٹوٹ جانے میں