سمجھ سکا نہ میرے چاند کوئی درد تیرا
مثالِ برگِ خزاں رنگ کیوں ہے زرد تیرا
جتا رہا ہے مجھے کتنی صحبتوں کا فراق
بجھا بجھا یہ بدن ہاتھ سرد سرد تیرا
وہ فاصلہ جسے صحرائے آ گہی کہئیے
بھٹک گیا اُسی صحرا میں رہ نورد تیرا
بچھڑ چلا ہے تو اپنے نشاں مٹاتا جا
پتہ بتائے گی اب راستے کی گرد تیرا
بکھر بکھر کے ہَوا نے یہ کارواں سے کہا
بچھڑ گیا کسی رستے میں کوئی فرد تیرا