ہم کیا کرتے کس راہ چلتے..
ہر راہ میں کانٹے بکھرے تھے..
ان رشتوں کے چھوٹ گئے..
ان صدیوں کے یارانوں کے..
جو اک اک کر کے ٹوٹ گئے..
جس راہ چلے جس سمت گئے..
یوں پاؤں لہو لہاں ہوۓ..
سب دیکھنے والے کہتے تھے..
یہ کیسی ریت رچائی ہے..
یہ مہندی کیوں لگائی ہے..
وہ کہتے تھے! کیوں قحط وفا کا
ناحق چرچا کرتے ہو؟؟
پاؤں کو لہو سے دھو ڈالو..
یہ راہیں جب اٹ جائیں گی..
سو راستے ان سے پھوٹیں گے..
تم دل کو سنبھالو جس میں ابھی؟
سو طرح کے نشتر ٹوٹیں گے!!