Dast-e-Taqdeer Se Har Shakhs Nay Hissa Paya,Mere Hissay Main Teray Saath Ki Hasrat Aai...!!

Monday, April 30, 2012

یادیں



پہلے سے دِن رہے نہ پہلی سی راتیں
رُوٹھ گیںٴ نیندیں نہ رہیں پہلی سی باتیں
گزرا ہے آج کوئی اجنبی ہو کے اس طرح
بھول گےً اُس کو و ہ لمحے وہ ملاقا تیں
بدل گیا سب کچھ اور رہ گیںٴ بس یادیں
کچھ دن سے جو ہو گیں اُس کو مجھ سے عداوتیں
گوشہِ دل میں جو بس جائیں بھلانا محال ہے
وہ نگاہ، وہ مسکان، وہ چہرے، وہ باتیں
اپنی ہی آہٹ سے لرزنے لگی ہوں اکژ 
اِسی حالت میں بھیگ جاتیں ہیں میری آنکھیں
گر ہم نہ رہے پہلے سے تو کہاں ہیں اب 
اُس میں بھی وہ پہلی سی نظر، وہ پہلی سی باتیں

عطا



حاصل نہ کچھ میری وفاؤں کا تھا
بیقدر شاید وہ اِنتہاؤں کا تھا
چلا گیا اور کچھ کہا سنا نہیں
رابطہ جِس کے ساتھ نگاہوں کا تھا
اِنتظار کرنا، اُسے یاد کرنا چھوڑ بھی دیا مگر پھر بھی 
گزارا کب اِس دل اور کب نگاہوں کا تھا
میرے دل کے ٹوٹنے کی آہٹ بھی نہ گئی اُس کے در پہ
بیکاری ہمارے دیدار ، جو ہماری چاہتوں کا تھا
نہ مرہم، نہ حوصلہ ، نہ دلاسہ ، نہ کوئی وعدہ اور
یہ اِنعام ہماری محبتوں اور رفاقتوں کا تھا
اب تو جانے تیرے بام و در کا کیا ہو گا عالم
جہاں کھلتے تھے پھو ل کیا سماں فظاؤں کا تھا
اِس غمِ بے نشان کا کروں کیا افشاں
یہ عطا اُن کی، سلسلہ اُن کی عنایتوں کا تھا

سزا


دِل کی ہر گلی ہر راستے پہ نام تیرا لکھ کر 
نکلے جو گھر سے لے کر تیری یادوں کا سہارا

واسطہ رہا ٹھوکروں کی ناوٴ سے بارہا
پھر سِلسلہ شُروع ہوا دِل کی سزاوٴں کا

ہم تو کہتے تھے تیرے شہر کو بے مثال مگر
کھُلا ہم پہ نشیمن ہے یہ بے وفاوٴں کا

نہ جی سکا نہ مر سکا، کیا اُس کا حال بتائیں
وہ جو ہو گیا شکار چارہ گر کی اداوٴں کا

چراغِ محبت کیا جلایا دل کے آشیاں میں
میرے گھر کو ہی ہو گیا رُخ ہواوٴں کا

پکارا ہے اُس کو کئی بار دل و جاں سے مگر 
ہوتا نہیں اُس پہ کچھ اثر اِس دل کی صداوٴں کا

سانسوں کی ڈور


دل کے آئینے میں تصویر تمہاری ہے
یہ تصویر ہم کو جاں سے پیاری ہے
تم سدا ر ہو آباد اور خوش 
یہ تمنا آج سے ہماری ہے
تم سے مل کر ہی سیکھی ہے محبت ہم نے
تم نے ہی یہ زندگی سنواری ہے
تمہاری سانسوں سے بندی بندی
میرے جیون کی ڈوری ہے
ہمارے لیے ہی رب نے یہ 
صورت آسمان سے اُتاری ہے
تیرے ملنے سے ملا مقصدِ حیات مجھ کو
آج تک تو زندگی ہم نے رائیگاں گزاری ہے

سنو


میرے ہم وطنوں، میرے عزیزوں
کر یں نہ ہم ابتداء ایسے
ہو جیسے اندھیری رات میں پھنسا
جنگو بنائے خود اپنا رستہ
ہوا ابتداء اچھی تو اختتام اچھا
چلو ہم مل کر اس نئے سال کا
خیر مقدم کرتے ہیں
دعاؤں کے ساتھ خوشیوں کے ساتھ
چھائے مایوسیوں کے بادل کو جھٹک کر
ہم سب مل کر
پر عزم وعدوں کے ساتھ امید کی نئی کرن
کے ساتھ
اے میرے ہم وطنوں
اس سال کی ابتداء
ہم سب مل کر
نئے جوش وولولے کے ساتھ کرتے ہیں

دیکھ تو سہی


دیکھ تو سہی 
ذرا آنکھ اٹھا کر 
آسمان کیوں رو رہا ہے آج 
دیکھ تو ذرا آنکھ غافل 
آج آنکھ اٹھا کر 
دیکھ تو سہی 
سن توزرا
کہ وہ کیا آہ و پکار کر رہا ہے 
کیوں رو رہا ہے 
ہم پر یا ان پر جن سے جینے کا حق 
چھین لیا گیا یا ان پر جن کی بے بسی 
کا مذاق اڑایا گیا یا پھر ان پر رو رہا ہے 
جن کی زندگیاں اجڑ گئی، یا پھر ان وادیوں پر 
جن کی دلکشیوں کو نوچ لیا گیا یا پھر ان 
پر جو انسان سے حیواں بن بیٹھے یا پھر 
ان پر رو رہا ہے
جو بے بس ہے مجبور ہے
لا چار ہے معصوم ہے
یا پھر ان پر آہ و پکار کر رہا ہے
آنسو بہار رہا ہے
جن کی عزتوں کو پامال کیا گیا
اے نیلی چھت کے رہنے والے 
آج آنکھ اٹھا کر دیکھ تو سہی 
ذرا اے انسان کہ وہ کیا آہ و پکار کر رہا ہے

Sunday, April 15, 2012

مجھے کیوں یاد آتے ہو

مجھے تم یاد آتے ہو
خیالوں میں
سوالوں میں
محبت کے حوالوں میں
تمہیں آواز دیتا ہوں
تمہیں واپس بلاتا ہوں
جب کوئی نظم کہتا ہوں
اسے عنوان دیتا ہوں
مجھے تم یاد آتے ہو
تمہاری یاد ہونے سے
کوئی سرگوشی کرتا ہے
یہ پلکیں بھیگ جاتی ہیں
دو آنسو ٹوٹ گرتے ہیں
میں پلکوں کو جھکاتا ہوں
بظاہر مسکراتا ہوں
فقط اتنا ہی کہتا ہوں
مجھے کتنا ستاتے ہو
۔
۔
مجھے کیوں یاد آتے ہو
مجھے کیوں یاد آتے ہو

کوئی ملا ہی نہیں جس کو وفادیتے


کوئی ملا ہی نہیں جس کو وفادیتے
ہر اک نے دہوکہ دیا کس کس کو سزا دیتے

یہ ھمارا ہی ظرف تھا کہ خاموش رہے ورنہ
داستان سناتے تو محفل کو رلا دیتے

کتنا عجیجب اپنی زندگی کا سفر نکلا
سارے جہاں کا درد ہمارے مقدرنکلا

جس کے نام اپنی زندگی کا ھر لمحہ کر دیا
افسوس وہی ھماری چاہت سے بے خبر نکلا

انداز ہو بہو تری آوازِ پا کا تھا

انداز ہو بہو تری آوازِ پا کا تھا
دیکھا نکل کے گھر سے تو جھونکا ہوا کا تھا

اٹھا عجب تضاد سے انسان کا خمیر
عادی فنا کا تھا تو پجاری بقاء کا تھا

اس رشتہء لطیف کے اسرار کیا کھلیں
تو سامنے تھا اور تصور خدا کا تھا

ٹوٹا تو کتنے آئینہ خانوں پہ زد پڑی
اٹکا ہوا گلے میں جو پتھر صدا کا تھا

چھپ چھپ کے روؤں اور سرِ انجمن ہنسوں
مجھ کو یہ مشورہ مرے درد آشنا کا تھا

دل راکھ ہو چکا تو چمک اور بڑھ گئی
یہ تیری یاد تھی کہ عمل کیمیا کا تھا

اس حسنِ اتفاق پہ لٹ کر بھی شاد ہوں
تیری رضا جو تھی وہ تقاضا وفا کا تھا

حیران ہوں کہ دار سے کیسے بچا 'ندیم'
وہ شخص تو غریب و غیور انتہا کا تھا

احمد ندیم قاسمى

خامشی کہہ رہی ہے کان میں کیا

خامشی کہہ رہی ہے کان میں کیا
آرہا ہے میرے گمان میں کیا

اب کوئی مجھ کو ٹوکتا بھی نہیں 
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا

بولتے کیوں نہیں میرے حق میں 
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

میری ہر بات بے اثر ہی رہی
نقص ہے کچھ میرے بیان میں کیا

وہ ملے تو یہ پوچھنا ہے مجھے 
ابھی میں ہوں تیری امان میں کیا

Wednesday, April 11, 2012

اگر تم کو محبت تھی


اگر تم کو محبت تھی
تو تم نے راستوں سے جا کے پوچھا کیوں نہیں منزل کے بارے میں
ہواؤں پر کوئی پیغام تم نے لکھ دیا ہوتا ۔۔۔
درختوں پر لکھا وہ نام، تم نے کیوں نہیں ڈھونڈا؟
وہ ٹھنڈی اوس میں بھیگا، مہکتا سا گُلاب اور میں
مرے دھانی سے آنچل کو تمھارا بڑھ کے چھو لینا
چُرانا رنگ تتلی کے، کبھی جگنو کی لو پانا
کبھی کاغذ کی کشتی پر بنانا دل کی صورت اور اس پر خواب لکھ جانا
کبھی بھنورے کی شوخی اور کلیوں کا وہ اِٹھلانا
تمھیں بھی یاد تو ہوگا؟
اگر تم کو محبت تھی، تو تم یہ ساری باتیں بھول سکتے تھے؟
نہیں جاناں!
محبت تم نے دیکھی ہے، محبت تم نے پائی ہے
محبت کی نہیں تم نے ۔۔۔