پہلے سے دِن رہے نہ پہلی سی راتیں
رُوٹھ گیںٴ نیندیں نہ رہیں پہلی سی باتیں
گزرا ہے آج کوئی اجنبی ہو کے اس طرح
بھول گےً اُس کو و ہ لمحے وہ ملاقا تیں
بدل گیا سب کچھ اور رہ گیںٴ بس یادیں
کچھ دن سے جو ہو گیں اُس کو مجھ سے عداوتیں
گوشہِ دل میں جو بس جائیں بھلانا محال ہے
وہ نگاہ، وہ مسکان، وہ چہرے، وہ باتیں
اپنی ہی آہٹ سے لرزنے لگی ہوں اکژ
اِسی حالت میں بھیگ جاتیں ہیں میری آنکھیں
گر ہم نہ رہے پہلے سے تو کہاں ہیں اب
اُس میں بھی وہ پہلی سی نظر، وہ پہلی سی باتیں