پھول چاہے تھے مگر ہاتھ میں آئے پتھر
ہم نے آغوشِ محبت میں سلائے پتھر
دشتِ دل کے تکلف کی ضرورت کے لیے
آج اس شوخ نے زلفوں میں سجائے پتھر
انکے قدموں کے تلے چاند ستارے دیکھے
اپنی راہوں میں سلگتے ہوئے پتھر
میں تیری یاد میں یوں دل کو لیے پھرتا ہوں
جیسے فرہاد نے سینے سے لگائےپتھر
فکرِ ساغر کے خریدار نہ بھولیں گے کبھی
میں نے اشکوں کے گہر تھے جو بنائے پتھر