صدمہ تو ہے مجھے بھی تجھ سے جدا ہوں میں
لیکن یہ سوچتا ہوں کہ اب تیرا کیوں ہوں میں
بکھرا پڑا ہے تیرے ہی گھر میں تیرا وجود
بیکار تجھے محفلوں میں ڈھونڈتا ہوں میں
میں خودکشی کے جرم کا کرتا ہوں اعتراف
اپنے بدن کی قبر میں کب سے گڑا ہوں میں
کس کس کا نام لوں زباں پر کہ تیرے ساتھ
ہر روز ایک شخص نیا دیکھتا ہوں میں
لے میرے تجربوں سے سبق اے میرے رقیب
دو چارسال عمر میں تجھ سے بڑا ہوں میں
جاگا ہوا ضمیر وہ آئینہ ہے قتیل
سونے سے پہلے روز جسے دیکھتا ہوں میں