Dast-e-Taqdeer Se Har Shakhs Nay Hissa Paya,Mere Hissay Main Teray Saath Ki Hasrat Aai...!!

Thursday, January 19, 2012

ہوا کو لکھنا جو آ گیا ھے


ہوا کو لکھنا جو آ گیا ھے
اب اسکی مرضی کے وہ خزاں کو بہار لکھ دے
بہار کو انتظار لکھ دے
سفر کی خواہش کو
وہموں کے عذاب سے ہمکنار لکھ دے
وفا کے رستوں پر چلنے والوں کی قسمتوں میں
غبار لکھ دے
ہوا کی مرضی
کہ وصل موسم میں ہجر کو حصہ دار لکھ دے
محبتوں میں گزرنے والی راتوں کو
نا پائیدار لکھ دے
ہوا کو لکھنا جو آ گیا ھے
اب اس کی مرضی
کہ وہ ھمارے دیے بجھا کر
شبوں کو با اختیار لکھ دے
ہوا کو لکھنا سکھانے والو
ھوا کو لکھنا جو آ گیا ھے

Saturday, January 14, 2012

اگر میں پتھر کی لڑکی ہوتی


اگر میں پتھر کی لڑکی ہوتی
تو اپنے پیکر کی سبز رت پر ،بہت سی کائی اگایا کرتی
بہت سے تاریک خواب بنتی
تو میں اذیت کی ملگجی انگنت اداسی کے رنگ چنتی
اگر میں پتھر کی لڑکی ہوتی

میں اپنے پلو میں سوگ باندھے ، کسی کو ان کا پتہ نہ دیتی
اجالے کو ٹھوکروں میں رکھتی، خموشیوں کے ببول چنتی
سماعتوں کے تمام افسون، پاش کرتی، میں کچھ نہ سنتی
دہکتی کرنوں کا جھرنا ہوتی
سفر کے ہر ایک مرحلے پر، میں رہزنوں کی طرح مکرتی
وہم اگاتی،گمان رکھتی
تمہاری ساری وجاہتوں کو میں سو طرح، پارہ پارہ کرتی
نہ تم کو یوں آئینہ بناتی

اگر میں پتھر کی لڑکی ہو تی ۔۔ !! ۔

یہ سال بھی آخر بیت گیا

یہ سال بھی آخر بیت گیا
کچھ ٹیسیں ، یادیں ، خواب لئے
کچھ کلیاں ، چند گلاب لئے
کچھ انکھڑیاں ، پُرآب لئے
کچھ اجلے دن ، کالی راتیں
کچھ سچے دکھ ، جھوٹی باتیں
کچھ تپتی رُتیں ، کچھ برساتیں
کسی یار ، عزیز کا دکھ پیارا
کسی چھت پہ امیدوں کا تارا
جس پہ ہنستا تھا جگ سارا
اِس شاعر نے جو حرف لکھے
اُن میں تری یاد کے سائے تھے
وہ لوگ بھی آخر لوٹ گئے
جو صدیوں پار سے آئے تھے
اُن ہنستے بستے لوگوں نے
مرے سارے دکھ اپنائے تھے
پھر میں نے یاد کی مٹی میں
زخمی لمحے دفنائے تھے !

Thursday, January 12, 2012

کاش


میری دنیا کاش تک محدود ہے
لفظ کاش۔۔۔ اک ایسا پرندہ ہے
جو آکاش تک
اپنے شہپر پھیلاتا ہے
اور میری زمینِ خواہش پر
اپنا سایہ رکھتا ہے

سعد اللہ شاہ

آنکھیں سیپیاں ہی تو ہوتی ہیں


آنکھیں سیپیاں ہی تو ہوتی ہیں
یہ بھی تو اشک لے کر
دل کی گہرائی میں ڈوب جاتی ہیں

سعد اللہ شاہ

جنوری لوٹ آئی ہے


جنوری لوٹ آئی ہے
اسے کہنا کتابوں میں رکھے، سوکھے ہوۓ کچھ پھول
اس کے لوٹ آنے کا یقین اب تک دلاتے ہیں
اسے کہنا۔۔۔کہ اسکی جھیل سی آنکھیں
کسی منظر پر چھا جائیں
تو سب منظر ،پھر یونہی بھیگ جاتے ہیں
اسے کہنا-------کہ ٹھنڈی برف پر کوئی کسی کے ساتھ چاتا ہے
تو قدموں کے نشاں پھر سے اس کے لوٹ آنے
کے نشان دل پر بناتے ہیں۔۔۔۔۔۔
اسے کہنا-------کہ اسکی بھیگی آنکھوں کا وہ آنسو
ستارے کی طرح اب بھی ہمیں شب بھر جگاتا ہے
اسے کہنا۔۔۔۔۔کہ بارش-----کھڑکیوں پے اسکے
آنسو ۔پینٹ کرتی ہے۔۔۔۔۔اسی کا نام لکھتی ہے
اسے ہی گنگناتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے کہنا---------------------کہ خوشبو،چاندنی،تارے،صبا
رستے،گھٹا،کاجل،محبت،
شبنم،ہوائیں،رات،دن،بادل،، ،
سبھی ناراض ہیں ہم سے---------
اسے کہنا''''''جدائی کے درختوں پر جو سوکھی ٹہنیاں ہیں۔۔۔
وہ ساری برف کی چادر میں کب کی ڈھک چکی ہیں۔۔۔۔
اور ان شاخوں پر یادوں کے جو پتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سنہری ہو گئے ہیں
اسے کہنا دسمبر سو گیا ہے۔۔۔۔۔۔
وہ یخ بستہ بھیگی جنوری پھر لوٹ آئی ہے۔۔۔
اسے کہنا لوٹ آۓ۔۔۔۔۔۔
ہاں!
اب لوٹ آۓ۔ ۔ ۔

آج صبح نئی نئی سی ہے


آج صبح نئی نئی سی ہے
ایسا لگتا ہے کہیں پاس ہے وہ
اسکی خوشبو میں بسے سرد ہوا کے جھونکے
کہہ رہے ہیں کہ یہیں پاس ہے وہ
بے بسی کر رہی ہے من بوجھل
دل اسے دیکھنے کو ہے بے کل
سونی گلکیوں کو تکے جا رہے ہیں
مانتے کیوں نہیں نینا پاگل
جانتے ہیں اسے معلوم نہیں ہجر کا غم
درد کا ذائقہ بھی اسنے کہاں چکھا ہے
پھر بھی راہوں میں بچھے جا رہے ہیں
سنا ہے شہر میں آج اسنے قدم رکھا ہے

تیرے ملنے کا اک لمحہ


تیرے ملنے کا اک لمحہ
بس اک لمحہ سہی – لیکن
وفا کا بے کراں موسم
ازل سے مہرباں موسم
یہ موسم آنکھہ میں اترے
تو رنگوں سے دہکتی روشنی کا عکس کہلاۓ
یہ موسم دل میں ٹھہرے تو
سنہری سوچتی صدیوں کا گہرا نقش بن جائے
ترے ملنے کا اک لمحہ
مقدر کی لکیروں میں دھنک بھرنے کا موسم ہے

لوٹ آئو

لوٹ آئو
 کہ منتظر ہے نگاہ
اس سے پہلے کہ لوح قسمت پر
باب الفت تمام ہو جائے
اس سے پہے کہ شام ہو جائے۔۔۔

Tuesday, January 10, 2012

مجھے راستوں نے تھکا دیا


مجھے منز لوں کا شعو ر تھا مجھے راستوں نے تھکا دیا
کبھی جن پہ مجھ کو یقین تھا ا نہی ساتھیوں نے د غا د یا

میرا ساتھ پا نے کی آرزو کبھی کتنی تم کو عزیز تھی
مجھے تم پہ کتنا غرور تھا سبھی خاک میں وہ ملا دیا

کبھی اس طرف جو گزر ہوا میری چشم تر کو بھی دیکھنا
تیری بدگما نی کی آنچ نے مجھے کیا سے کیا ہے بنا دیا

نئے خواب بن کے نگاہ میں میری دسترس سے نکل گیا
بنی اس کے پاؤں کی دھول میں مجھے یہ وفا کا صلہ دیا

میں تیری ہی ذات کا عکس تھی تیرا عشق تیرا نصیب تھی
میں تو منزلوں کا نشان تھی مجھے بے نشان بنا دیا

میں کیوں سر سے پا تک بدل گئی کہ میرا وجود کہاں کھو گیا
تیری عاشقی نے میرے مہرباں! مجھے کیا سے کیا ہے بنا دیا

Sunday, January 8, 2012

چھوٹے چھوٹے سے مفادات لئے پھرتے ہیں


چھوٹے چھوٹے سے مفادات لئے پھرتے ہیں
دربدر خود کو جو دن رات لئے پھرتے ہیں
اپنی مجروح اناؤں کو دِلاسے دے کر
ہاتھ میں کاسۂ خیرات لئے پھرتے ہیں
شہر میں ہم نے سنا ہے کہ ترے شعلہ نوا
کچھ سلگتے ہوئے نغمات لئے پھرتے ہیں
دنیا میں تیرے غم کو سمونے والے
اپنے دل پر کئی صدمات لئے پھرتے ہیں
مختلف اپنی کہانی ہے زمانے بھر سے
منفرد ہم غمِ حالات لئے پھرتے ہیں
ایک ہم ہیں کہ غمِ دہر سے فرصت ہی نہیں
ایک وہ ہیں کہ غمِ ذات لئے پھرتے ہیں
اعتبار ساجد

ہم کو کیا اپنے خریدار میسر آتے


ہم کو کیا اپنے خریدار میسر آتے
کوئی یوسف تھے کہ بازار میسر آتے
کیسا ہرجائی ہے مقبول بھی کس درجہ ہے
کاش ہم کو ترے اطوار میسر آتے
اس گلی میں ابھی تِل دھرنے کی گنجائش ہے
اور عاشق تجھے دو چار میسر آتے
کوچہ گردی سے ہی فرصت نہیں دن رات ہمیں
گھر کے ہم ہوتے تو غمخوار میسر آتے
دربدر پھرتے رہے سوختہ ساماں تیرے
ہم مہاجر تھے کہ انصار میسر آتے؟
اپنے سینے کا یہ ننھا سا دِیا کام آیا
نہ یہ جلتا، نہ یہ اشعار میسر آتے
اعتبار ساجد

اُسے کہنا


بے رنگ ہے ہر غنچۂ لب کیا اُسے کہنا
ہم اُس کے ابھی تک ہیں پر اب کیا اُسےکہنا

کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں یہ بُجھتی ہوئی آنکھیں
کیا کہتی ہے تنہایِٔ شب کیا اُسے کہنا

کیا دادِ سخن چاہنا بے ذوق ہنر سے
کیا فائدۂ عرضِ طلب کیا اُسے کہنا

اِک شہر خیالوں کا افق پار ہے روشن
ہے منتظر اِک وادیٔ شب کیا اُسے کہنا

کیا یاد دلانا اُسے بُھولی ہوئی باتیں
جیسے ہیں مراسم تو ہیں اب کیا اُسے کہنا

کس نزع کے عالم میں ہوئے شعر غزل کے
کس حال میں ہیں نغمہ بہ لب کیا اُسے کہنا

اعتبار ساجد

Wednesday, January 4, 2012

سورج تیری آگ بجھے گی کتنے پانی سے؟


سوچ رہی ہے جانے کب سے آدم کی اولاد
ایک ہی بیج سے جب یہ اتنے ڈھیروں پیڑ اُگے
ایک ہی پیڑ کی شاخ شاخ پہ مہکے جو سب پھول
ایک ہی پھول کے دامن میں جو سارے رنگ بھرے

پھر یہ کیسا فرق ہے ان میں ، کیسا ہے اُلجھاؤ
ایک ہی پھول کی ہر پتی میں دُنیا ایک نئی
ایک ہی شاخ پہ کھل اُٹھتے ہیں کیسے کیسے پھول!
ایک ہی پیڑ پہ مل جاتے ہیں باہم رنگ کئی

لیکن ان کے میل میں بھی ہے اک دوری موجود
کھا جاتے ہیں زرد سیہ کو سُرخ اور گہرے رنگ
زور آور سے دب جاتے ہیں ، جتنے ہیں کمزور
طاقت والے ہو جاتے ہیں طاقتور کے سنگ
پوچھ رہی ہے جانے کب سے آدم کی اولاد
سُکھ کا دن کب پیدا ہوگا رات کہانی سے
دھرتی! تیرا پیٹ بھرن کو کتنی مٹی ہو!
سورج تیری آگ بجھے گی کتنے پانی سے؟

محبتوں کا نگر بنادے۔۔


یہ کاغذی توت کے شجر ہیں
کہ دل کشا ہے نہ جن کا منظر
نہ جن کا سایہ ہے روح پرور
جو بدنما ہیں، جو بےثمر ہیں!
اگائے تھے پچھلے موسموں میں
جو ہم نے، تم نے
تو اب میرے شہر، شہرِ یاراں کو
ان کا جنگل نگل رہا ہے
روش روش وہ گلاب و سرو و سمن کا منظر
بدل رہا ہے
مری زمیں بانجھ ہو رہی ہے
کہ شہر جنگل میں ڈھل رہا ہے!
عجیب موسم، عجب فضا ہے
کہ شہر ویران، بَن ہرا ہے،
خزاں گزیدہ،
اداس چہروں پہ اک حرفِ التجا ہے
یہ دعا ہے کہ ربِ کون مکاں
پھر ایک حرفِ 'کُن' سے
جگا دے اس غمکدے کی قسمت
مرے قبیلے کو پھرکوئی مردِ حُر عطا کر
وہ میرا عقبہ، وہ ابنِ نافع
یہ قیرواں، منتظر ہے جس کا
جو میرے جنگل کو گھر بنادے
محبتوں کا نگر بنادے۔۔

یہ جو گہری اُداس آنکھیں ہیں

یہ جو گہری اُداس آنکھیں ہیں
ان میں خوابیدہ سب زمانے ہیں
سارے پھول ان کے نام لیوا ہیں
چاند تاروں میں ان کی باتیں ہیں
ان کی باہوں میں سب سمندر ہیں
گیت دریا انہی کا گاتے ہیں
ان سے چلتی ہے عشق کی دنیا
شعر سب ان کی وارداتیں ہیں
آسماں ان کا اک تصور ہے
وقت بے چارہ ان کا نوکر ہے
ان کی ہر بات مے کا پیالہ ہے
ان سے ہر سمت پہ اجالا ہے
ان میں گزرے دنوں کا جادو ہے
ان میں آتی رُتوں کی خوشبو ہے
چاندنی ان میں دھوپ ان میں ہے
حسن کا سارا روپ ان میں ہے
دکھ کی گہرائیاں بھی ان میں ہیں
سکھ کی انگڑائیاں بھی ان میں ہیں
ان میں خوابوں کی وہ کتاب بھی ہے
دل کا ٹوٹا ہوا رباب بھی ہے
میری ساری خوشی انہی سے ہے
دل میں یہ روشنی انہی سے ہے
یہ جو گہری اُداس آنکھیں ہیں

نہیں یہ میرا چاند نہیں


نہیں
یہ میرا چاند نہیں
اتنا دھندلا
اتنا ماند
میرا چاند؟
نہیں یہ میرا چاند نہیں
یہ تو کوئی پیتل کی تھالی
کسی نے یونہی کر کے خالی
دیواروں کے پار
اچھالی
نہیں !یہ میرا چاند نہیں
اگر یہ میرا چاند ہے تو پھر شہر کی راتو!
اس میں چرخہ کاتنے والی
بڑھیا کیوں موجود نہیں ہے
دائیں سے بائیں،اُوپر نیچے
اُڑنے والی
چڑیا کیوں موجود نہیں ہے
میرے ساتھ مرے بچپن میں
کھیلنے والی
گڑیا کیوں موجود نہیں ہے

اعتبار ساجد