یہ سال بھی آخر بیت گیا
کچھ ٹیسیں ، یادیں ، خواب لئے
کچھ کلیاں ، چند گلاب لئے
کچھ انکھڑیاں ، پُرآب لئے
کچھ اجلے دن ، کالی راتیں
کچھ سچے دکھ ، جھوٹی باتیں
کچھ تپتی رُتیں ، کچھ برساتیں
کسی یار ، عزیز کا دکھ پیارا
کسی چھت پہ امیدوں کا تارا
جس پہ ہنستا تھا جگ سارا
اِس شاعر نے جو حرف لکھے
اُن میں تری یاد کے سائے تھے
وہ لوگ بھی آخر لوٹ گئے
جو صدیوں پار سے آئے تھے
اُن ہنستے بستے لوگوں نے
مرے سارے دکھ اپنائے تھے
پھر میں نے یاد کی مٹی میں
زخمی لمحے دفنائے تھے !