ہم کو کیا اپنے خریدار میسر آتے
کوئی یوسف تھے کہ بازار میسر آتے
کیسا ہرجائی ہے مقبول بھی کس درجہ ہے
کاش ہم کو ترے اطوار میسر آتے
اس گلی میں ابھی تِل دھرنے کی گنجائش ہے
اور عاشق تجھے دو چار میسر آتے
کوچہ گردی سے ہی فرصت نہیں دن رات ہمیں
گھر کے ہم ہوتے تو غمخوار میسر آتے
دربدر پھرتے رہے سوختہ ساماں تیرے
ہم مہاجر تھے کہ انصار میسر آتے؟
اپنے سینے کا یہ ننھا سا دِیا کام آیا
نہ یہ جلتا، نہ یہ اشعار میسر آتے
اعتبار ساجد