بے رنگ ہے ہر غنچۂ لب کیا اُسے کہنا
ہم اُس کے ابھی تک ہیں پر اب کیا اُسےکہنا
کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں یہ بُجھتی ہوئی آنکھیں
کیا کہتی ہے تنہایِٔ شب کیا اُسے کہنا
کیا دادِ سخن چاہنا بے ذوق ہنر سے
کیا فائدۂ عرضِ طلب کیا اُسے کہنا
اِک شہر خیالوں کا افق پار ہے روشن
ہے منتظر اِک وادیٔ شب کیا اُسے کہنا
کیا یاد دلانا اُسے بُھولی ہوئی باتیں
جیسے ہیں مراسم تو ہیں اب کیا اُسے کہنا
کس نزع کے عالم میں ہوئے شعر غزل کے
کس حال میں ہیں نغمہ بہ لب کیا اُسے کہنا
اعتبار ساجد