اگر میں پتھر کی لڑکی ہوتی
تو اپنے پیکر کی سبز رت پر ،بہت سی کائی اگایا کرتی
بہت سے تاریک خواب بنتی
تو میں اذیت کی ملگجی انگنت اداسی کے رنگ چنتی
اگر میں پتھر کی لڑکی ہوتی
میں اپنے پلو میں سوگ باندھے ، کسی کو ان کا پتہ نہ دیتی
اجالے کو ٹھوکروں میں رکھتی، خموشیوں کے ببول چنتی
سماعتوں کے تمام افسون، پاش کرتی، میں کچھ نہ سنتی
دہکتی کرنوں کا جھرنا ہوتی
سفر کے ہر ایک مرحلے پر، میں رہزنوں کی طرح مکرتی
وہم اگاتی،گمان رکھتی
تمہاری ساری وجاہتوں کو میں سو طرح، پارہ پارہ کرتی
نہ تم کو یوں آئینہ بناتی
اگر میں پتھر کی لڑکی ہو تی ۔۔ !! ۔