Dast-e-Taqdeer Se Har Shakhs Nay Hissa Paya,Mere Hissay Main Teray Saath Ki Hasrat Aai...!!

Wednesday, June 15, 2011

ياد


اس موسم ميں جتنے پھول کھليں گے
ان ميں تيري ياد کي خوشبو ہر سو روشن ہوگي
پتہ پتہ بھولے بسرے رنگوں کي تصوير بناتا گزرے گا

اک ياد جگاتا گزرے گا
اس موسم ميں جتنے تارے آسمان پہ ظاہر ہوں گے
ان ميں تيري ياد کا پيکر منظر عرياں ہوگا
تيري جھل مل ياد کا چہرا روپ دکھاتا گزرے گا
اس موسم ميں
دل دنيا ميں جو بھي آہٹ ہوگي
اس ميں تيري ياد کا سايا گيت کي صورت ڈھل جائے گا
شبنم سے آواز ملا کر کلياں اس کو دوہرائيں گي
تيري ياد کي سن گن لينے چاند ميرے گھر اترے گا
آنکھيں پھول بچھائيں گي
اپني ياد کي خوشبو کو دان کرو اور اپنے دل ميں آنے دو
يا ميري جھولي کو بھر دو يا مجھ کو مرجانے دو
احمد فراز

ہر کوئي دل


ہر کوئي دل کي ہتھيلي پہ ہے صحرا رکھے
کس کو سيراب کرے وہ کسے پياسا رکھے

عمر بھر کون نبھاتا ہے تعلق اتنا
اے مري جان کے دشمن تجھے اللہ رکھے

ہم کو اچھا نہيں لگتا کوئي ہم نام تيرا
کوئي تجھ سا تو پھر نام بھي تجھ سا رکھے

دل بھي کہ اس شخص سے وابستہ ہے
جو کسي اور کا ہونے دے نہ اپنا دکھے

قناعت ہے اطاعت ہے کے چاہت فراز
ہم تو راضي ہيں وہ جس حال میں جيسا رکھے

احمد فراز

چھيڑے کبھي


چھيڑے کبھي ميں نے لب و رخسار کے قصے
گا ہےگل و بلبل کي حکايات کو نکھارا

گا ہے کسي شہزادے کے افسانے سنائے
گا ہے کيا دنيائے پرستاں کا نظارا

ميں کھويا رہا جن و ملائک کے جہاں ميں
ہر لحظہ اگر چہ مجھے آدم نے پکارا

احمد فراز

برسوں کے بعد


برسوں کے بعد ديکھا شخص دلربا سا
اب ذہن ميں نہيں ہے پرنام تھا بھلا سا

ابرو کچھے کچھے سے آنکھيں جھکي جھکي سي
باتيں رکي رکي سي، لہجہ تھکا تھکا سا

الفاظ تھے کہ جگنو آواز کے سفر ميں
بن جائے جنگلوں ميں جس طرح راستہ

خوابوں ميں خواب اس کے يادوں ميں ياد اس کي
نيندوں ميں گھل گيا ہو جيسے کہ رتجگا سا

پہلے بھي لوگ آئے کتنے ہي زندگي ميں
وہ ہر طرح سے ليکن اوروں سے تھا جدا سا

اگلي محبتوں نے وہ نامرادياں ديں
تازہ رفاقتوں سے دل تھا ڈرا ڈرا سا

يہ عالم شوق


يہ عالم شوق کا ديکھا نہ جائے
وہ بت ہے يا خدا، ديکھا نہ جائے

يہ کن نظروں سے تو نے آج ديکھا
کہ تيرا ديکھنا، ديکھا نہ جائے

ہميشہ کيلئے مجھ سے بچھڑ جا
يہ منظر بارہا ديکھا نہ جائے

غلط ہے سنا پر آزما کر
تجھے اے بے وفا ديکھا نہ جائے

يہ محرومي نہيں پاس وفا ہے
کوئي تيرے سوا ديکھا نہ جائے

يہي تو آشنا بنتے ہيں آخر
کوئي نا آشنا ديکھا نہ جائے

فراز اپنے سوا ہے کون تيرا
تجھے تجھ سے جدا ديکھا نہ جائے

احمد فراز

اک سنگ


اک سنگ تراش جس نے برسوں
ہيروں کي طرح صنم تراشے
آج اپنے صنم کدے ميں تنہا
مجبور نڈھال زخم خوردہ
دن رات پڑا کراہتا ہے
چہرے اجاڑ زندگي
لمحات کي ان گنت خراشيں
آنکھوں کے شکتہ مرکدوں ميں
روٹھي ہوئي حسرتوں کي لاشيں
سانسوں کي تھکن بدن کي ٹھنڈک
احساس سے کب تلک لہو لے
ہاتھوں ميں کہا سکت کہ بڑھ کر
خود ساختہ پيکروں کے جھولے
يہ زخم طلب يہ نامرادي
ہر بت کے لبوں پہ ہے تبسم
اے تيشہ بد ست ديوتائو
انسان جواب چاہتا ہے

Ahmed Faraz

اب رت بدلي


اب رت بدلي تو خوشبو کا سفر ديکھے گا کون
زخم پھولوں کي طرح مہکيں گے پر ديکھے گا کون

زخم جتنے بھي تھے سب منسوب قاتل سے ہوئے
تيرے ہاتھوں کے نشاں اے چارہ گر ديکھے گا کون

وہ ہوس ہو يا وفا ہو بات محرومي کي ہے
لوگ پھل پھول ديکھيں گے شجر ديکھے گا کون

ہم چراغ شب ہي جب ٹہرے تو پھر کيا سوچنا
رات تھي کس کا مقدر اور سحر ديکھے گا کون

ہر کوئي اپني ہوا ميں مست پھرتا ہے فراز
شہر نا پرساں ميں تير چشم تر ديکھے گا کون

احمد فراز

اب کے ہم بچھڑے


اب کے ہم بچھڑے تو شايد کبھي خوابوں ميں مليں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں ميں مليں

ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں ميں وفا کے موتي
يہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں ميں مليں

غم دنيا بھي غم يار ميں شامل کر لو
نشہ برپا ہے شرابيں جو شرابوں ميں مليں

تو خدا ہے نہ ميرا عشق فرشتوں جيسا
دونوں انساں ہيں تو کيوں اتنے حجابوں ميں مليں

آج ہم دار پہ کھينچے گئے جن باتوں پر
کيا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں ميں مليں

اب نہ وہ ميں ہوں نہ تو ہے نہ وہ ماضي ہے فراز
جيسے دو سائے تمنا کے سرابوں ميں مليں

...ٹہر گيا


ٹہر گيا تو اس کے زد ميں آئے گا
اس سے پہلے وقت لگائے ٹھوکر چل

تمہاري گرم روي الاماں ارے توبہ
پناہ ڈھونڈتي ہيں گردشيں زمانے کي

گنگنانے کي اگر فرصت ہو
زندگي ساب بھي بن سکتي ہے

ہم سے شفق پرستوں کي شايد ہمارے بعد
صورت بھي ديکھنے کو ترس جائے گي شام

بے سبب آج مرا رو دينا
اک سبب ہوگيا رسوائي کا

ساتھ تم ہو تو يہي رنگ شفق کہلائے
شام فرقت ہوتو عاشق کا لہو کہتے ہيں

سن کے آہٹ دھڑکنے لگتا ہے
ہم نے ديکھا ہے جو حوصلہ دل کا

غرور صبح بہارا کو ہے صباحت پر
تم اپنے رخ سے پرے زلف مشک بوتو کرو

کرشن راحت

ٹھوکر جہاں


ٹھوکر جہاں لگي وہ سنبھلنے کا تھا مقام
ہم اس کو اتفاق ہي گردانتے رہے

تو ميري التجا پہ خفا اس قدر نہ ہو
تيري جبيں سے اٹھ نہ سکے گا شکن کو بوجھ

کيوں شفق کو شفق نہ سمجھا جائے
کيوں تمنائوں کا لہو کہئيے

اک پردہ حائل نے بچھا رکھا ہے اس کو
عرياں ہوا گر حسن تو آئينہ پگھل جائے گا

کہتے ہيں وہ گوہر ناياب عنقا ہوگيا
سنتےہيں اشک ندامات بھي تھا انسانوں کے پاس

تمہاري ياد کا يہ سلسہ معاذ اللہ
ذرا سا فاصلہ اشکوں کے درمياں نہ ملا

کچھ تو انساں نے پسارا ہے بہت پائے طلب
اور کچھ سائے سمٹتے گئے ديواروں کے

تيرے اصلي روپ سے سب گھبرائيں گے
اس نگري ميں راحت بھيس بدل کر چل

ميراث ہي اس کي ہو يہ خانہ دل جيسے
خواہش نے مرے دل ميں يوں پائو پسارے ہيں

کرشن راحت