ٹھوکر جہاں لگي وہ سنبھلنے کا تھا مقام
ہم اس کو اتفاق ہي گردانتے رہے
تو ميري التجا پہ خفا اس قدر نہ ہو
تيري جبيں سے اٹھ نہ سکے گا شکن کو بوجھ
کيوں شفق کو شفق نہ سمجھا جائے
کيوں تمنائوں کا لہو کہئيے
اک پردہ حائل نے بچھا رکھا ہے اس کو
عرياں ہوا گر حسن تو آئينہ پگھل جائے گا
کہتے ہيں وہ گوہر ناياب عنقا ہوگيا
سنتےہيں اشک ندامات بھي تھا انسانوں کے پاس
تمہاري ياد کا يہ سلسہ معاذ اللہ
ذرا سا فاصلہ اشکوں کے درمياں نہ ملا
کچھ تو انساں نے پسارا ہے بہت پائے طلب
اور کچھ سائے سمٹتے گئے ديواروں کے
تيرے اصلي روپ سے سب گھبرائيں گے
اس نگري ميں راحت بھيس بدل کر چل
ميراث ہي اس کي ہو يہ خانہ دل جيسے
خواہش نے مرے دل ميں يوں پائو پسارے ہيں
کرشن راحت