ہر اِک چلن میں اُسی مہربان سے ملتی ہے
زمیں ضرور کہیں آسماں سے ملتی ہے
ہمیں تو شعلہِ خرمن فروز بھی نہ ملا
تِری نظر کو تجلّی کہاں سے ملتی ہے؟
تِری نظر سے آخر عطا ہوئی دل کو
وہ اِک خلِش کہ غمِ دو جہاں سے ملتی ہے
چلے ہیں سیف وہاں ہم علاجِ غم کے لیے
دلوں کو درد کی دولت جہاں سے ملتی ہے
سیف الدین سیف