آنکھ میں بوند نہ ہو دل میں سمندر رکھنا
دولتِ درد کو دنیا سے چھپا کر رکھنا
کل گئے گذرے زمانوں کو خیال آئے گا
آج اتنا بھی نہ راتوں کو منور رکھنا
اپنی آشفتہ مزاجی پہ ہنسی آتی ہے
دشمنی سنگ سے اور کانچ کا پیکر رکھنا
آس کب نہیں تھی دل کو تیرے آ جانے کی
پر نہ ایسی کہ قدم گھر سے نہ باہر رکھنا
ذکر اس کا ہی سہی بزم میں بیٹھے ہو فراز
درد کیسا ہی اٹھے ہاتھ نہ دل پر رکھنا