بچھڑ کے تجھ سے تیری یاد کے نگر آئے
کہ اک سفر سے کوئی جیسے اپنے گھر آئے
ہمارے ساتھ رکے گی ہماری تنہائی
تمہارے ساتھ گئے جو بھی در بدر آئے
گماں بھٹکنے لگے تھے پسِ نگاہ مگر
چراغ دور سے جلتے ہوئے نظر آئے
چھٹہ غبار تو راہوں میں کتنے پھول کِھلے
بجی جو ڈف تو فصیلوں پہ کتنے سر آئے
بہار راس نہ آئی قفس نشانوں کو
اڑان بھول گئے جوں ہی بال و پر آئے
شاعر : ذاہد مسعود