اس سے پہلے کہ بے وفا ہوجائيں
کيوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائيں
تو بھي ہيرے سے بن گيا تھا پتھر
ہم بھي جانے کيا ہو جائيں
تو کہ يکتا بے شمار ہوا
ہم بھي ٹوٹيں تو جا بجا ہوجائيں
ہم بھي مجبوريوں کا عذع کريں
پھر کہيں اور مبتلا ہو جائيں
ہم اگر منزليں نہ بن پائے
منزلوں تک کا راستہ ہو جائيں
دير سے سوچ ميں ہيں پروانے
راکھ ہو جائيں يا ہوا ہوجائيں
اب کے گر تو ملے تو ہم تجھ سے
ايسے لپٹيں کہ قبا ہو جائيں
بندگي ہم نے چھوڑ دي فراز
کيا کريں جب لوگ خدا ہوجائيں
احمد فراز