Dast-e-Taqdeer Se Har Shakhs Nay Hissa Paya,Mere Hissay Main Teray Saath Ki Hasrat Aai...!!

Thursday, September 23, 2010

...اب کے برس کچھ ایسا کرنا


اب کے برس کچھ ایسا کرنا
اپنے گزرے بارہ ماہ کے
دکھ سکھ کا اندازہ کرنا
بسری یادیں تازہ کرنا
سادہ سا اک کاغذ لے کر
بھولے بسرے پل لکھ لینا
اپنے سارے کل لکھ لینا
پھر اس بیتے اک اک پل کا
اپنے گزرے اک اک کل کا
اک اک موڑ احاطہ کرنا
سارے دوست اکھٹا کرنا
ساری صبحیں حاضر کرنا
ساری شامیں پاس بلانا
اور علاوہ ان کے دیکھو
سارے موسم دھیان میں رکھنا
اک اک یاد گمان میں رکھنا
پھر محتاط قیاس لگانا
گر تو خوشیاں بڑھ جاتی ہیں
تو پھر تم کو میری طرف سے
آنے والا سال مبارک
اور گر غم بڑھ جائیں تو
مت بیکار تکلف کرنا
دیکھو پھر تم ایسا کرنا
میری خوشیاں تم لے لینا
مجھ کو اپنے غم دے دینا
اب کے سال کچھ ایسا کرنا

...کون کہتا ہے


کون کہتا ہے وہ میرے بعد تنہا ہو گا
وہ اک چراغ ہے کہیں اور جلتا ہو گا

وہ تو رہتا ہے محبتوں کے دیس میں
اسے کیا خبر اسے کوئی سوچتا ہو گا

...آج یہ سب کچھ نام تمھارے

آج یہ سب کچھ نام تمھارے

ساحل
ریت
سمندر
لہریں
بستی
دوستی
صحرا
دریا
خوشبو
موسم
پھول
دریچے
بادل
سورج
چاند
ستارے
آج یہ سب کچھ نام تمھارے
خواب کی باتیں
یاد کے قصے
سوچ کے پہلو
نیند کے لمحے
درد کے آنسو
چین کے نغمے
اڑتے وقت کے بہتے دھارے
روح کی آہٹ
جسم کی جنبش
خون کی گردش
سانس کی لرزش
آنکھ کا پانی
چاہت کے یہ عنوان سارے
آج یہ سب کچھ نام تمھارے

...میں نے اس طور سے چاہا


میں نے اس طور سے چاہا تجھے اکثر جاناں

جیسے مہتاب کو بے انت سمندر چاہے

جیسے سورج کی کرن سیپ کے دل میں اترے

جیسے خوشبو کو ہوا رنگ سے ہٹ کر چاہے

جیسے پتھر کے کلیجے سے کرن پھولتی ہے

جیسے غنچے کھلے موسم سے حنا مانگتے ہیں

جیسے خوابوں میں خیالوں کی کماں ٹوٹنتی ہے

جیسے بارش کی دعا آبلہ پا مانگتے ہیں

میرا ہر خواب میرے سچ کی گواہی دے گا

وسعت دید نے تجھ سے تیری خواہش کی ہے

میری سوچوں میں کبھی دیکھ سراپا اپنا

میں نے دنیا سے الگ تیری پرستش کی ہے

خواہش دید کا موسم کبھی دھندلا جو ہوا

نوچ ڈالی ہے زمانوں کی نقابیں میں نے

تیری پلکوں یہ اترتی ہوئی صبح کیلئے

توڑ ڈالی ہیں ستاروں کی طنابیں میں نے

میں نے چاہا کہ تیرے حسن کی گلنار فضا

میری غزلوں کی قطاروں سے دہکتی جائے

میں نے چاہا کہ مرے دل کے گلستاں کی بہار

تیری آنکھوں کے گلابوں سے مہکتی جائے

طے تو یہ تھا کہ سجاتا رہے لفظوں کے کنول

میرے خاموش خیالوں میں تکلم تیرا

رقص کرتا رہے، پھرتا رہے خشبو کا خمار

میری خواہش کے جزیروں میں تبسم تیرا

مجھ سے مانگے کا تیرے عہد محبت کا حساب

تیرے ہجراں کا دہکتا ہوا محشر جاناں

یوں میرے دل کے برابر تیرا غم آیا ہے

جیسے شیشے کے مقابل پتھر جاناں

جیسے مہتاب کو بے انت سمندر چاہے

میں نے اس طور سے چاہا تجھے اکثر جاناں



محسن نقوی

......اکیلے رونا ہو گا


ہنسو تو ساتھ ہنسے گی دنیا، بیٹھ اکیلے رونا ہو گا

چپکے چپکے بہا کر آنسو، دل کے دکھ کو دھونا ہو گا

بیرن ریت بری دنیا کی آنکھوں سے جو بھی ٹپکا موتی

پلکوں ہی سے اٹھانا ہو گا ،پلکوں ہی سے پرونا ہوگا

کھونے اور پانے کا جیون نام رکھا ہے ہر کوئی جانے

اس کا بھید کوئی نہ دیکھا، کیا پانا، کیا کھونا ہو گا

پیاروں سے مل جائیں پیارے انہونی کب ہونی ہو گی

کانٹے پھول بنیں گے کیسے کب سکھ سیج بچھونا ہو گا

جو بھی دل نے بھول میں چاہا بھول میں جانا ہو کے رہے گا

سوچ سوچ کر ہوا نہ کچھ بھی، آﺅ اب تو کھونا ہو گا

کیوں جیتے جی ہمت ہاریں کیوں فریادیں، کیوں یہ پکاریں

ہوتے ہوتے ہو جائے گا آخر جو بھی ہونا ہو گا

میرا جی، کیوں سوچ ستائے پلک پلک ڈوری لہرائے

قسمت جو بھی رنگ دکھائے اپنے دل میں سمونا ہو گا

Wednesday, September 22, 2010

.....درد پھیل جائے تو



درد پھیل جائے تو ایک وقت آتا ہے
دل دھڑکتا رہتا ہے
آرزو گزیدوں کے حوصلے نہیں چلتے
دشت بے یقنی میں آسرے نہیں ملتے
رہرؤں کی آنکھوں میں
منزلیں نہ جب تک ہوں، قافلے نیں چلتے
اک ذرا توجہ سے دیکھیے تو کھلتا ہے
لو گ ان پہ چلتے ہیں راستے نہیں چلتے
سوچنے سمجھنے سے ، ساتھ ساتھ چلنے سے
دوریاں سمٹتی ہیں، فاصلے نہیں چلتے
خواب خواب آنکھوں میں رتجگے نہیں چلتے
درگزر کے حلقے میں مسئلے نہیں چلتے
دو دلوں کی قربت میں تیسرا نہیں ہوتا
واسطے نہیں چلتے
بخت ساتھ چلتا ہے طالع آزماؤں کے
وقت رام کرنے میں تجزیوں کے داؤ کیا
تجربے نہیں چلتے
عشق کےعلاقے میں حکمِ یار چلتا ہے
ضابطے نہیں چلتے
حسن کی عدالت میں عاجزی تو چلتی ہے
مرتبے نہیں چلتے
دوستی کے رشتوں کی پرورش ضروری ہے
سلسلے تعلق کے خود سے بن تو جاتے ہیں
لیکن ان شگوفوں کو ٹوٹنے بکھرنے سے
روکنا بھی پڑتا ہے
چاہتوں کی مٹی کو، آرزو کے پودے کو
سینچنا بھی پڑتا ہے
رنجشوں کی باتوں کو بھولنا بھی پڑتا ہے
اس طرح کی باتوں میں احتیاط کرتے ہیں
زندگی کی راہوں میں
بارہا یہ دیکھا ہے
صرف سن نہیں رکھا
خود بھی آزمایا ہے
تجربوں سے ثابت ہے
خود بھی پڑھتے آئے ہیں
اس کو ٹھیک پایا ہے
اس طرح کی باتوں سے
منزلوں سے پہلے ہی
سا تھ چھوٹ جاتے ہیں
لوگ روٹھ جاتے ہیں
یہ تمہیں بتا دوں میں
چاہتوں کے رشتے میں دوسرا نہیں ہوتا
پھر گرہ نہیں لگتی
لگ بھی جائے تو اس میں
وہ کشش نہیں ہوتی
ایک پھیکا پھیکا سا
رابطہ تو ہوتا ہے
تازگی نہیں رہتی
روح کے تعلق میں
زندگی نہیں رہتی
بات وہ نہیں رہتی
دوستی نہیں رہتی
لاکھ بار مل کربھی
دل نہیں ملتے

امجد اسلام امجد