میں نے اس طور سے چاہا تجھے اکثر جاناں
جیسے مہتاب کو بے انت سمندر چاہے
جیسے سورج کی کرن سیپ کے دل میں اترے
جیسے خوشبو کو ہوا رنگ سے ہٹ کر چاہے
جیسے پتھر کے کلیجے سے کرن پھولتی ہے
جیسے غنچے کھلے موسم سے حنا مانگتے ہیں
جیسے خوابوں میں خیالوں کی کماں ٹوٹنتی ہے
جیسے بارش کی دعا آبلہ پا مانگتے ہیں
میرا ہر خواب میرے سچ کی گواہی دے گا
وسعت دید نے تجھ سے تیری خواہش کی ہے
میری سوچوں میں کبھی دیکھ سراپا اپنا
میں نے دنیا سے الگ تیری پرستش کی ہے
خواہش دید کا موسم کبھی دھندلا جو ہوا
نوچ ڈالی ہے زمانوں کی نقابیں میں نے
تیری پلکوں یہ اترتی ہوئی صبح کیلئے
توڑ ڈالی ہیں ستاروں کی طنابیں میں نے
میں نے چاہا کہ تیرے حسن کی گلنار فضا
میری غزلوں کی قطاروں سے دہکتی جائے
میں نے چاہا کہ مرے دل کے گلستاں کی بہار
تیری آنکھوں کے گلابوں سے مہکتی جائے
طے تو یہ تھا کہ سجاتا رہے لفظوں کے کنول
میرے خاموش خیالوں میں تکلم تیرا
رقص کرتا رہے، پھرتا رہے خشبو کا خمار
میری خواہش کے جزیروں میں تبسم تیرا
مجھ سے مانگے کا تیرے عہد محبت کا حساب
تیرے ہجراں کا دہکتا ہوا محشر جاناں
یوں میرے دل کے برابر تیرا غم آیا ہے
جیسے شیشے کے مقابل پتھر جاناں
جیسے مہتاب کو بے انت سمندر چاہے
میں نے اس طور سے چاہا تجھے اکثر جاناں
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment