Dast-e-Taqdeer Se Har Shakhs Nay Hissa Paya,Mere Hissay Main Teray Saath Ki Hasrat Aai...!!

Tuesday, March 27, 2012

♥ فرصتیں ♥

تمھیں جب کبھی ،ملیں فرصتیں
میرے دل سے بوجھ اتار دو
میں بہت دنوں سے اداس ہوں
مجھے کوئی شام ادھار دو---
کسی اور کو میرے حال سے
نہ غرض ہے نہ کوئی واسطہ
میں بکھر گیا ہوں
سمیٹ لو
میں بگڑ گیا ہوں،
سنوار دو

♥ کشکول ♥


جب ہر سُو رنگ سے پھیل گئے
امیدوں کا کشکول اُٹھائے من اپنا بھی پھر چل نکلا
پھر آتے گئے ہمدرد مرے اور بھرتا گیا کشکول میرا
ہر لفظ دُعا کا تھا اس لمحے اور ہر بول میرا
لوٹ آیا دل اپنا من کی چوکھٹ پہ
بے چین بہت تھا دل میرا کہ نہ جانے اب کیا راز کھلے
دل خوش تھا کہ آج تو خوشیاں جیت گئیں اور آج تو غم ہار گئے
لیکن جب کشکول میں جھانکا تو دیکھا
وہاں آہیں تھیں وہاں آنسو تھے
کچھ ٹوٹے دل بے قابو تھے
وہاں خوشیوں اک کا نام نہ تھا
بس اشکوں کی برسات ملی
یاروں سے ہے یہ کیسی سوغات ملی
پھر ٹوٹا جام اور چھلکی آنکھیں
تھیں قسمت میں اب لمبی راتیں
جب یاروں نے دل توڑ دیا
پھر کیسے قصے کیسی باتیں
آخر بے بس ہو کر دل نے یہ جان لیا
یہاں خوشیوں کے سب ساتھی ہیں
یہ غم کو بٹانا کیا جانیں

♥ میری ذات ذرّہ بے نشان ♥

میں وہ کس طرح سے کرون بیان
جو کے گئے ہیں ستم یہاں

سنے کون میری یہ داستان
کوئی ہم نشین ہے نہ راز دان
جو تھا جھوٹ وہ بنا سچ یہاں
نہیں کھولی مگر میں نے زبان
یہ اکیلا پن یہ اداسیاں
میری زندگی کی ہیں ترجمان

میری ذات ذرّہ بے نشان

کبھی سونی صبح میں ڈھونڈنا
کبھی اجڑی شام کو دیکھنا

کبھی بھیگی پلکوں سے جاگنا
کبھی بیتے لمحوں کو سوچنا
مگر ایک پل ہے امید کا
ہے مجھے خدا کا جو آسرا
نہیں میں نے کوئی گلا کیا
نہ ہی میں نے دی ہیں دوہایاں

میری ذات ذرّہ بے نشان


میں بتاؤں کیا مجھے کیا ملے
مجھے صبر ہی کا صلہ ملے

کسی یاد ہی کی ردا ملے
کسی درد ہی کا صلہ ملے
کسی غم کی دل میں جگہ ملے
جو میرا ہے وہ مجھے آ ملے
رہے شاد یونہی میرا جہاں
کہ یقین میں بدلے میرا گمان

میری ذات ذرّہ بے نشان

♥ دعا ♥

چاندنی،
اُس دریچے کو چُھوکر
مرے نیم روشن جھروکے میں آئے ، نہ آئے
مگر
میری پلکوں کی تقدیر سے نیند چُنتی رہے
اور اُس آنکھ کے خواب بُنتی رہے

♥ محبّت روٹھہ جاتی ہے ♥

محبّت ریل کی مانند
کہ انجانے مسافر اس کی ہر پل
راہ تکتے ہیں
یہ بس اک بار آتی ہے
اگر یہ چھوٹ جائے تو
مسافر سوگ کرتے ہیں
مسافر روگ کرتے ہیں
محبّت جوگ کی مانند
جسے اک بار لگ جائے
وہ سب کچھہ بھول جاتا ہے
محبّت دیوار سے لپٹی اک بیل کی مانند
جو سدا بڑھتی ہی جاتی ہے
محبّت خوشبو کی مانند
جو ہر سو پھیل جاتی ہے
محبّت گنگناتی ہے
سُریلے گیت کے مانند
کسی کے نرم ہونٹوں سے
یہ جب لفظوں کی صورت میں نکلتی ہے
تمنّا پھر مچلتی ہے
محبّت راکھہ ہوتی ہے
محبّت پاک ہوتی ہے
محبّت معصوم سا سچ ہے
کہ اس کو بولنے سے روح میں
پاکیزگی سی لوٹ آتی ہے
تبھی تو! محبّت میں اگر کوئی جھوٹ بولے تو
!!!!محبّت روٹھہ جاتی ہے

بہت بے درد ہوں نا میں؟

بہت بے درد ہوں نا میں؟
ستاتا ہوں بہت تُم کو
رُلاتا ہوں بہت تُم کو
کہ تُم کو چھوڑ کر تنہا
خزاں لمحوں کی بانہوں میں
بہت ہی دُور سوچوں سے
یہاں پردیس آیا ہوں
مگر میں سوچتا ہوں کہ
سبھی ساون، سبھی بھادوں
کٹے جو میرے بن جاناں
وہ سب کیسے لوٹاؤں گا
کہ میں اس ہجر کی قیمت
بھلا کیسے چُکاؤں گا
کہوں گا کیا، کروں گا کیا؟
مجھے اتنا پتا دے دو؟
چلو ایسا کرو جاناں
مجھے کوئی سزا دے دو
کہ جب سونے کو من چاہے
اور ان آنکھوں کو مُوندوں میں
میری پلکوں کی گھونگٹ اُڑ کر
تُم رُوبرو آنا
میری آنکھوں میں بس جانا
ذرا بھی دُور اپنی یاد سے ہونے نہیں دینا
مجھے سونے نہیں دینا

♥ صدیوں سے اجنبی ♥


اُس کی قُربت میں بِیتے سب لمحے
میری یادوں کا ایک سرمایہ
خُوشبوؤں سے بھرا بدن اُس کا
قابلِ دید بانکپن اُس کا
شعلہ افروز حُسن تھا اُس کا
دِلکشی کا وہ اِک نمونہ تھی
مجھ سے جب ہمکلام ہوتی تھی
خواہشوں کے چمن میں ہر جانب
چاہتوں کے گُلاب کِھلتے تھے
اُس کی قُربت میں ایسے لگتا تھا
اِک پری آسماں سے اُتری ہو
جب کبھی میں یہ پُوچھتا اُس سے
ساتھ میرے چلو گی تم کب تک
مجھ سے قسمیں اُٹھا کے کہتی تھی
تُو اگر مجھ سے دُور ہو جائے
ایک پل بھی نہ جی سکوں گی میں
آج وہ جب جُدا ہوئی مجھ سے
اُس نے تو الوداع بھی نہ کہا
جیسے صدیوں سے اجنبی تھے ہم
آصف شفیع

♥ ایک بے حس لڑکی ♥


اسے کچھ لوگ کہتے ھیں ۔ ۔
بہت بے حس سی لڑکی ھے،
سدا خاموش رھتی ھے
بہت کم مسکراتی ھے
بسی آنکھوں میں ویرانی
چھپی چہر ے پہ حیرانی
اگر کوئی جو کچھ پوچھے
جوابی بات کہکر ۔ ۔ پھر
یونہی خامو ش رھتی ھے
بڑی بے حس سی لڑکی ھے
خود ھی میں گم ھی رھتی ھے
یہ کچھ مغرور لڑکی ھے ۔ ۔ ۔.

یہ باتیں سنکے اس لڑکی کو

پھر کچھ یاد آتا ھے ۔ ۔ ۔ ۔
کبھی یہ لوگ کہتے تھے ۔ ۔
بڑی چنچل سی لڑکی ھے
ھمیشہ مسکراتی ھے ۔ ۔
اور اکثر گنگناتی ھے ۔ ۔
چمکتا چاند سا چہرہ
کھنکتا شو خ سالہجہ
دیے جلتے ھیں آنکھوں میں
بڑی شوخی ھے باتوں میں
فضائیں دیکھ کر اسکو
خوشی سے جھوم جاتی ھیں
چمکتی رات اسکے نین میں
سپنے جگاتی ھے ۔ ۔ ۔
تمازت دھوپ کی چہر ے پہ اسکے
گل کھلاتی ھے ۔ ۔ ۔



کبھی بارش کے موسم میں

سہانے کھیل کشتی کے

کبھی گڑیوں کی شادی ھو
کبھی گیتوں کی بازی ھو
یہ ھر دم پیش رھتی ھے

بڑی الہّڑ سی لڑکی ھے
یہ کتنی شو خ لڑکی ھے ؟



مگر اب لوگ کہتے ھیں ۔ ۔

عجب بے حس سی لڑکی ھے
بہت کم مسکراتی ھے ،
سدا خاموش رھتی ھے


..........



انہیں معلوم کیسے ھو ؟
وفا کے قید خانے میں ۔ ۔
فرائض کے نبھانے میں
جو لڑکی دار چڑھتی ھے
جسے سپنوں کے بننے کی
سزائیں وقت نے دی ھو ں ،
جو رسموں اور رواجوں کے
الاؤ میں سلگتی ھو ۔ ۔ ۔
لبوں کی نوک پر جسکے ۔ ۔
گلے بے جان ھوتے ھوں
جسم کی قید میں ۔ ۔ ۔
جب روح اکثر پھڑپھڑاتی ھو
تو اک کمزور سی لڑکی ۔ ۔
یونہی بے موت مرتی ھے

تو پھر یوں لوگ کہتے ھیں ۔ ۔
بہت سنجیدگی اوڑھے ۔ ۔
عجب بے حس سی لڑکی ھے
بھت کم مسکراتی ھے ۔ ۔
سدا خاموش رھتی ھے ۔ ۔ ۔

♥ شامِ تنہائی میں ♥

شامِ تنہائی میں
اب بھی شاعر رہوں؟
کس کی خاطر رہوں؟
کون ہے جو مرے لفظ و معنی کی آنکھوں سے بہتے؟
آنسوؤں میں چُھپے درد چُنتا پِھرے؟
خواب بُنتا پِھرے ؟
کون ہے جو مرے خون ہوتے ہوئے دل کی آواز پر؟
اپنی آواز کے ہونٹ رکھتا پِھرے؟
کون آنکھیں مری دیکھ کر یہ کہے؟
کیا ہوا جانِ جاں؟
کب سے سوئے نہیں؟
اِس سے پہلے تو تم اِتنا روئے نہیں؟
اب بھلا کس لئے خُوبصورت سی آنکھیں پریشان ہیں؟
اپنی حالت پہ خود اتنی حیران ہیں؟
کون بے چین ہو؟
کون بے تاب ہو؟
موسمِ ہجر کی شامِ تنہائی میں، آبلہ پائی میں
کون ہو ہمسفر، گرد ہے رہگزر
کوئی رستہ نہیں، کوئی راہی نہیں
در پہ دستک کی کوئی گواہی نہیں
دل کے برباد و ویران صفحات پر
جس قدر لفظ لکھے تھے بے کار ہیں
ایک لمبی جُدائی کے آثار ہیں
سوچتا ہوں کہ اب
اِن خیالوں سے خوابوں سے باہر رہوں
کیوں میں شاعر رہوں؟
کس کی خاطر رہوں؟

♥ اِک لمحہ جب تم نے مجھے دِل سے نکالا تھا ♥


اِک لمحہ جب تم نے مجھے دِل سے نکالا تھا
کئی صدیوں پہ بھاری تھا
میں اس لمحے ہجر کی بے مہر گلیوں میں جبیں آسماں سے ٹوٹ کر بِکھرے ہوئے
راہ و رسم محبت کے لہو میں تربہ تر ذرے
جمع کرنے کو نکلا تھا
میں اس لمحے کی گردِش میں وجودِ عشق کا اِک بے کفن لاشہ
لرزتے کانپتے ہاتھوں پہ پھیلائے
بگولے کی طرح رقصاں
ہر اِک کوچے سے گزرا ہوں
ہر اِک دہلیز پہ میں نے صفِ ماتم بِچھائی
مگر کوئی نہ بولا
کسی نے بڑھ کر میرے ہجر کا چہرہ نہہیں دیکھا
کوئی نوحہ نہیں لکھا
میری آواز کی سب دستکیں اور آہیں بے فیض ٹھری ہے
سو اب میں لوٹ آیا ہوں
میرے پاؤں کو اب بھی اِک جگہ رکنے نہیں دیتی ہے

♥♥ ضد ♥♥


تمہیں ضد ہے کہ میں کہہ دوں
مجھے ضد ہے کہ تم کہہ دو
مجھے تم سے محبت ہے
کہو مجھ سے محبت ہے
نہیں یہ جانتے دونوں
محبت کب محتاج ہوتی ہے
لفظوں کی ،باتوں کی
محبت تو ہماری دھڑکنوں کے ساز میں شامل
سُریلے گیت کی مانند
محبت یاد کی دیوی
جو تنہا رات کو اکثر آتی ہے آنکھوں میں
محبت مسکراہٹ ہے
حسیں نازک سے ہونٹوں میں
محبت صندلی ہاتھوں کی
نازک لرزشوں میں ہے
محبت سوچ کی گہرائیوں سے پھوٹتی خوشبو
ہمیشہ ساتھ رہتی ہے
محبت آنکھ میں پلتا ہوا پُر اسرار سا جذبہ
جسے اب تک نہیں کوئی سمجھ پایا
نہ اس کی کوئی صورت ہے
نہ اس کا کوئی پیمانہ
ڈھکے الفاظ میں اس کا بہت اظہار ہوتا ہے
کچھ ایسے ہی کہ جیسے اب
تہہِ دل سے تو ہم دونوں اقرار کرتے ہیں
مگر پھر بھی نجانے کیوں
تمہیں ضد ہے کہ میں کہہ دوں
مجھے ضد ہے کہ تم کہہ دو
مجھے تم سے محبت ہے
کہو مجھ سے محبت ہے

♥ ہم تو اسیرِ خواب تھے ♥


ہم تو اسیرِ خواب تھے تعبیر جو بھی تھی
دیوار پر لِکھی ہُوئی تحریر جو بھی تھی

ہر فرد لا جواب تھا ، ہر نقش بے مثال
مِل جُل کے اپنی قوم کی تصویر بھی تھی

جو سامنے ہے ، سب ہے یہ ،اپنے کیئے کا پھل
تقدیر کی تو چھوڑئیے، تقدیر جو بھی تھی

طالب ہیں تیرے رحم کے ہم عَدل کے نہیں
جیسا بھی اپنا جُرم تھا، تقصیر جو بھی تھی

ہاتھوں پہ کوئی زخم نہ پیروں پہ کُچھ نشاں
سوچوں میں تھی پڑی ہُوئی، زنجیر جو بھی تھی

آیا اور اِک نگاہ میں برباد کر گیا
ہم اہلِ انتظار کی جاگیر جو بھی تھی

قدریں جو اپنا مان تھیں ، نیلام ہوگئیں
ملبے کے مول بِک گئی تعمیر جو بھی تھی

یہ اور بات چشم نہ ہو معنی آشنا
عبرت کا ایک درس تھی تحریر جو بھی تھی

امجد ہماری بات وہ سُنتا تو ایک بار
آنکھوں سے اُس کو چُومتے، تعزیر جو بھی تھی

♥ گواھیاں ♥


اگر احساس ھے تو محبت کو محسوس کر
ضروری نہیں کے میں اظہار کرؤ تجھکو
خاموش لب مسکراتی آنکھیں بے چین دل
ہر بار گواھیاں دیں گئ مختلف انداز سے

♥ ہر صبح کا آغاز ♥


ہر رات یہ سوچ کر سوتی ھوں کہ
اسے نہیں دیکھے گئے مگرمیری
ہر صبح کا آغاز ھوتا ھے اس کی
دید سے

♥ میری قسمت ♥


میری قسمت ستارے کی طرح ھے
کبھی چمکتی ھے کبھی اندھیری ھے
قسمت ٹوٹتی ھے ایک ٹوٹے ستارے کی طرح

♥ میں نے پوچھا تھا ♥


میں نے پوچھا تھا کہ تم میرے ھو
اس نے کہا ہاں میں تمارا ھوں
میں نے کہا تمارا پیار صرف میرا ھے
اس نے کہا ہاں میری چاھت صرف تمارے ھے
میں نے کہا کہ وفا کرؤ گئے
اس نے کہا ہاں
پھر وہ کبھی لوٹ کر نہیں آیا

♥ قسمت ♥


قسمت کے فیضلے ھیں
مقدر کیا کرئے
مقدر میں توں نہیں
زندگی کو کیا کرئے
زندگی میں توں نہیں
جی کر کیا کرئے
جینے کی کوئی امید نہیں
امید کی کوئی امنگ نہیں
امنگ میں رنگ نہیں
رنگ میں چمک نہیں
چمک میں وشمہ نہیں
وشمہ میں دم نہیں

♥ اگر میں خوبصورت ھوتی تو ♥


اگر میں خوبصورت ھوتی تو
تیری آنکھوں میں رہتی
تیرے دل کی دھڑکن ھوتی
اگر میں خوبصورت ھوتی
تیرے ھونٹوں کی مسکراہٹ ھوتی
اگر میں خوبصورت ھوتی
تیری روح میں بستی
تیری سوچوں میں رہتی
تیرے خوابوں میں آتی
اگر میں خوبصورت ھوتی

♥ دل سے نکلے گئی حسرت کسی دن ♥


دل سے نکلے گئی حسرت کسی دن
تم سے نظر ملے گئی کسی دن
تماری تمنا جو ھو وہ تمنا بن جاؤں
آ بی سکتی ھے سرئے راہ یوں کسی دن
ھو جائے کسی دن یہ دل عنایت کسی دن
تیری نگاھوں سے یہ دیکھکے کسی دن
توں میری گفتگو میری زبان توں
میری کتاب کا عنوان بن جائے کسی دن
یہ کھول دیے راز میں اسکی محبت بن جاؤ کسی دن

♥ کیا بتاؤں تم کیا ھو ♥


کیا بتاؤں تم کیا ھو
یہ میری خود پرستی ھے یا
حق پرستی ھے میرے حال پر دنیا
کیوں ہنستی ھے یا سمجھتی ھے
ترک تعلق کس طرح کس سے کیجھے
دنیا نہیں سمجھتی ھے یہ دنیا کی نئی بستی ھے
کوئی اجرتی ھیں کوئی بستی ھیں
اپنی نہ منزل ھے نہ راستہ پھر بھی
یہ کوئی نہ سمجتی ھےنہ کہتی ھے
ذوق پرستی کاکیا ذوق ھےمیرا
یہ دنیا اتنا نہ سمجھتی ھے
دید سے اتنا دکھہ ھے مجھے
جھوم جھوم کر اتنا برستی ھے

♥ تم پر بھاری ھیں میری محبت کی نشانیاں ♥


تم پر بھاری ھیں میری محبت کی نشانیاں
لوٹنے سے اگر بھول سکتے تم
اگر بے وفائی کا داغ دھول سکتے تم
بے شک تم سب کچھہ لوٹہا دو
مجھے کوئی ملا ل نہیں ھے اگر تم
میری محبت کی نشانیاںلٹا رھے ھو
لوٹہ سکتے ھووہ لحمے مجھے تم
تمارے ساتھہ بیتے تھے
لوٹہ سکتے ھو تولوٹہ دو مجھے میری چاہت کے دن
لوٹہ دو مجھے میرے آنسو میرے وہ پل انتظار کے
لوٹہا سکتے ھو تو مجھے میری پہچان تم
بھو لاچکی تھی اپنی پہچان کو

♥ کاش میرا بھی گھر ھوتا ♥


کاش میرا بھی گھر ھوتا
دن رات جاگتی آنکھوں سے
تیرا خواب دیکھتی ھوں
ہر گھر کو دیکھکر لگتا ھے ایسے
شاہد یہی میرا گھر ھوتا
پر سکون نیند ھوتی
پر سکون زندگی ھوتی
کاش میرا بھی گھر ھوتا
کھولی آنکھوں سے جو
خواب دیکھتی ھوں
میرے گھر کی عمارت خاکی اور
سفید ھوتی گھر کے باہر میرے نام
کی عبارت ھوتی
کاش میرا بھی گھر ھوتا
کھولی آنکھوں سے خواب دیکھتی ھوں

Thursday, March 1, 2012

دل جل رہا تھا غم سے مگر نغمہ گر رہا

دل جل رہا تھا غم سے مگر نغمہ گر رہا
جب تک رہا میں ساتھ مرے یہ ہُنر رہا

صبحِ سفر کی رات تھی، تارے تھے اور ہوا
سایہ سا ایک دیر تلک بام پر رہا

میری صدا ہوا میں بہت دُور تک گئی
پر میں بُلا رہا تھا جِسے، بے خبر رہا

گزری ہے کیا مزے سے خیالوں میں زندگی
دُوری کا یہ طلسم بڑا کارگر رہا

خوف آسماں کے ساتھ تھا سر پر جھکا ہوا
کوئی ہے بھی یا نہیں ہے، یہی دل کو ڈر رہا

اُس آخری نظر میں عجب درد تھا منیر
جانے کا اُس کے رنج مجھے عمر بھر رہا

منیر نیازی

مگن کس دھن میں اپنے آپ کو دن رات رکھتا ہے


مگن کس دھن میں اپنے آپ کو دن رات رکھتا ہے
نجانے آج کل وہ کیسے معمولات رکھتا ہے

اثاثہ اس کے کمرے کا ہیں کچھ مغموم آوازیں
درازوں میں مقفل ہجر کے نغمات رکھتا ہے

ہماری گفتگو کس روز کس منزل پہ پہنچی تھی
بلا کا حافظہ ہے یاد وہ ہر بات رکھتا ہے

اگر نالاں ہوں میں اس سے تو وہ بھی خوش نہیں مجھ سے
مرے جیسے ہی وہ میرے لیے جذبات رکھتا ہے

بہت گہرا ہے ‘اس کی ظاہری حالت پہ مت جانا
وہ سینے میں پہاڑوں سے بڑے صدمات رکھتا ہے

اسے کیا چاند سے بھی کوئی دلچسپی نہیں*
وہ اپنی کھڑکیوں کو بند کیوں دن رات رکھتا ہے

ﺧﺸﮏ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﭘﺮ ﻟﺮﺯﺗﯽ ﺍِﮎ ﺩُﻋﺎ ﺭﮦ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ


ﺑﺴﺘﯿﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﺍﮎ
ﺻﺪﺍﺋﮯ ﺑﮯ ﺻﺪﺍ ﺭﮦ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ
ﺑﺎﻡ ﻭ ﺩَﺭ ﭘﮧ ﻧﻘﺶ ﺗﺤﺮﯾﺮِ ﮨﻮﺍ ﺭﮦ ﺟﺎﺋﮯ
ﮔﯽ

ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﮐﺎ ﺭﺯﻕ ﮨﻮﮞ ﮔﯽ ﺑﮯ ﻧﺘﯿﺠﮧ
ﭼﺎﮨﺘﯿﮟ
ﺧﺸﮏ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﭘﺮ ﻟﺮﺯﺗﯽ ﺍِﮎ ﺩُﻋﺎ ﺭﮦ
ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ

ﺭُﻭ ﺑﺮﻭ ﻣﻨﻈﺮ ﻧﮧ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺁﺋﻨﮯ ﮐﺲ ﮐﺎﻡ
ﮐﮯ
ﮨﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺩُﻧﯿﺎ ﮔﺮﺩِ ﭘﺎ ﺭﮦ
ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ

ﺧﻮﺍﺏ ﮐﮯ ﻧﺸّﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﮭﮑﺘﯽ ﺟﺎﺋﮯ
ﮔﯽ ﭼﺸﻢِ ﻗﻤﺮ
ﺭﺍﺕ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻠﯽ ﺍﻟﺘﺠﺎ ﺭﮦ
ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ

ﺑﮯ ﺛﻤﺮ ﭘﯿﮍﻭﮞ ﮐﻮ ﭼﻮﻣﯿﮟ ﮔﮯ ﺻﺒﺎ ﮐﮯ
ﺳﺒﺰ ﻟﺐ
ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﻨﺎ، ﯾﮧ ﺧﺰﺍﮞ ﺑﮯ ﺩﺳﺖ ﻭ ﭘﺎ ﺭﮦ
ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ

زباں سُخن کو، سُخن بانکپن کو ترسے گا


زباں سُخن کو، سُخن بانکپن کو ترسے گا
سُخن کدہ میری طرزِ سُخن کو ترسے گا

نئے پیالے سہی تیرے دور میں ساقی
یہ دور میری شرابِ کہن کو ترسے گا

مجھے تو خیر وطن چھوڑ کے اماں نہ ملی
وطن بھی مجھ سے غریب الوطن کو ترسے گا

اُن ہی کے دم سے فروزاں ہیں مِلّتوں کے چراغ
زمانہ صحبتِ ارباب و فن کو ترسے گا

بدل سکو تو بدل دو یہ باغباں ورنہ
یہ باغ سایۂ سرو و سمن کو ترسے گا

ہوائے ظلم یہی ہے تو دیکھنا ایک دِن
زمین پانی کو، سورج کِرن کو ترسے گا

ناصر کاظمی

سورج کا بدن کاٹ کے زنجیر کروں گا


سورج کا بدن کاٹ کے زنجیر کروں گا
اس طرح سے میں وقت کو تسخیر کروں گا

میں ظلم کے ایوان میں اعلان بغاوت
میں وقت کے فرعون کی تحقیر کروں گا

اے بادِ وفا آ تو سہی میری گلی میں
میں اپنے لہو سے تری توقیر کروں گا

جس کو نہ کوئی خوف ہو اس سنگ صفت کا
اب شیش محل ایسا میں تعمیر کروں گا

ہر ایک غزل درد کی سوغات سے بھر کر
میں پیرویِء میر تقی میر کروں گا

عمران رشید یاور

طائروں کی اڑان میں ہم ہیں


طائروں کی اڑان میں ہم ہیں
اس کھلے آسمان میں ہم ہیں

آخر کار ہجر ختم ہوا
اور پس ماندگان میں ہم ہیں

کیوں نہ خوفِ انہدامِ دل
اسی خستہ مکان میں ہم ہیں

ہم فقط تری گفتگو میں نہیں
ہر سخن ہر زبان میں ہم ہیں

کیا دعا کی قبولیت اشفاق
سب کے وہم و گمان میں ہم ہیں

اشفاق ناصر

زخم کی بات نہ کر زخم تو بھر جاتا ہے


زخم کی بات نہ کر زخم تو بھر جاتا ہے
تیر لہجے کا کلیجے میں اتر جاتا ہے

موج کی موت ہے ساحل کا نظر آجانا
شوق کترا کے کنارے سے گزر جاتا ہے

شعبدہ کیسا دکھایا ہے مسیحائی نے
سانس چلتی ہے ، بھلے آدمی مر جاتا ہے

مندروں میں بھی تو دعائیں سنی جاتی ہیں
اشک بہہ جائیں جدھر ، مولا ادھر جاتا ہے

حسن افزا ہوئی اشکوں کی سنہری برکھا
پھول برسات میں جس طرح نکھر جاتا ہے

غالباً تخت پہ جنات کا سایہ ہوگا
کچھ تو ہے ہر کوئی آتے ہی مکر جاتا ہے

گر نہ لکھوں میں قصیدہ تو ہے تلوار اقرب
سر بچا لوں تو مرا ذوق ہنر جاتا ہے

قیس اگر آج ہیں زندہ تو جنوں زندہ باد
سوچنے والا تو اس دور میں مر جاتا ہے

شہزاد قیس

غم رسیدہ روح کی زنجیر


غم رسیدہ روح کی زنجیر
گر تم توڑ بھی ڈالو
مری چپ کے قفل
گر کھول بھی ڈالو
تو آنکھوں کی نمی جو
میری سانسوں میں جمی ہے
اُس کی بوندیں
کب تلک چنتے رہو گے؟
بے صدا صبحوں کو آخر
کب تلک سنتے رہو گے؟

مات


سُنو جاناں
محبت کے سفر میں ایسا بھی اِک موڑ آئے گا
جدائی گھات میں ہو گی
تو آگے بڑھ کے اُس کے ہاتھ ، اپنا ہاتھ دے دینا
تم اُس کو مات دے دینا

ابھی تو خواب باقی ہے


ابھی سے نیند سے ہم کو جگاتے ہو؟
نہیں جاناں!
ابھی پلکیں اُٹھانا تک ہمیں دشوار لگتا ہے
ابھی تو خواب باقی ہے

ســجے ہــــوۓ شــــہر کے مکیــــنو


مــجھے نہ دیکھ !
مـیں بے زمـاں بے مـکاں اداسـی کے کـھدرے ہـاتھ سے،،
تراشیــــدہ "ســنگ زادہ"..
مــیرے بــدن پـر قبـاۓ سـادہ..
میـں خـواہشـوں کے ہـجوم مـیں بـھی،،
خـود اپـنے خــوابوں کا آدمی ہــوں..
مـیں کــتنی صـدیوں کی بے بـسی ہـوں.!
سـجے ہــوۓ شــہر کے مکیــنو !!
مــجھے نــہ دیــکھو !!
مــیں اجــــنبی ہــــوں،،
مــیں اجــــنبی ہــــوں.!
خــود اپــنے بیــتے ہــوۓ مـہ و سـال کـی خراشـوں سے..
میــرے قــبیلے پـہ ہــــجرتــــوں کے ســفر مـیں،،
شبــــخوں.........ہــوا نے مــارا
میــرے پــس وپیــش دھــوپ ہی دھــوپ نــاچتی ہے..
مــیرے یمیــں و یـسار لاشــوں کے سرخ ٹیــلے...
میــں کــس کــا مــاتم کـروں عزیــــزو ؟؟؟
میــں کـس کـو آواز دوں .........کـہ مـیں
تـمام لاشــوں سے اجــنبی ہــوں.!!!
ســجے ہــوۓ شــہر کے مکیــنو !!!
مجــھے نــہ دیــکھو !!!
کـہ مـیرا سـایہ،،
تمہـاری رنـگوں نہـائی صبـحیں
چـبا نـہ ڈالے..
کـہ میـرا سـایہ ،،
کـسی کــھنڈر مـیں پـرانی محـراب کـا دیـا ہے..
نـہ مـیرے سیـنے مــیں روشنـی ہے..
نـہ مـیرے لـب پـر کـوئی دعـا ہے !!!
ســجے ہــوۓ شــــہر کے مکیــنو !!!
مجــھے نــہ دیــکھو !!!
میـری کـٹی انـگلیوں کـی زد مـیں،،
قـلم کـی جـنبش ! تـراشتـی ہے..
تـمام نـوحے اداسیـوں کے،،
تمـام لــہجے!
اجــاڑ بســتیوں کے باسیــوں کے..
مجـھے نـہ دیـکھہ ! میـری آنـکھیں،،
اجـاڑ صدیـوں کے زائـچے ہـیں..
کہ میـرے ہـونٹــوں پـہ،،
مــــوت کـی پھــانکتی ہــواؤں کے ذائــقے ہــیں..
ســجے ہــوۓ شــــہر کے مکیــنو !!!
مــجھے نہ دیــکھو !!!
میــں اپــنی میــــت کـا آپ وارث.!!
مـیں اپـنے بے آسـرا لــہو کــا،،
خــود آپ "برزخ"
میــرے نــقش مـیں اتـرتی صـبحوں،،
بـکھرتی شامـــوں کـی خـودکشی ہے..
حـذر کـرو مـیری قـربتوں سے
کہ مـیرا مــاحول "تــــنہائی" ہے..
ســجے ہــوۓ شــــہر کے مــــکینو !!!
مــجھے نــہ دیــکھو !!!
مجــھے نــہ چــھیڑو !!!
نہ مــیرے دکــھ کـا سـفر کـرو تــم !!!
ھـوا کـو اتـنی خـبر کـرو تـم،،،
ھـوا جــو مجـھ سے الــجھ رہے ہے..
ھـوا جــو مــٹی میـں دفـن ہـوتی ہـوئی اداسـی سے اجــنبی ہے..
ھــوا جــو رســتے مٹــا رہے ہے..
سـجے ہــوۓ شــہر کے مکیــنو !!
مــجھے نــہ دیــکھو !!

اداســـی ٹھـــر جـــاتی ہے


اداســـی کـا اگـــرچہ اپنـا کـوئی گـھر نہیں ہـوتا..
مــگر جـب نگـــاہوں مـیں،،
گـذرگــاہوں کـا ســـونا پـن کـھٹکتـا ہے..
کـسی کے عــــــکس مـیں ڈوبـی ہـوئی آنــکھیں،،
کـبھی جـو بـــارشوں کـا سـاتھ دیـتی ہـیں..
ســـفر کـی شـب، اکـیلے پـن کـا گہـــرا رنگ..
جـب ویـران دہـلیزوں کـی پھیـکی زردیـوں پـر پھـیل جـاتا ہے..
مسافــــــر کـو مــگر پـھر بـھی کـوئی پرســـہ نـہیں دیتـا..
اداســـی ٹھـــر جـــاتی ہے !!!

گـئے موســـموں،،،
پـلٹ کے یـــادوں کے دھـند لــکے دریـــچوں پـــر..
ادھـــوری دستــکوں کـا شـک بـھٹکا جـاتے ہیـں..
سـردی سانـــس کے تـن مـن مـیں بـس جـاتی ہے..
ســپنے مـیں کـــوئی لـمحہ اتـر کـر ٹـــوٹ جـاتا ہے..
کـبھی پردیـــسی،،
اگـر اپـنے نـہ آنے کـا کـوئی پـــیغام بـھیجیں..
اور مکـانـــوں پـر لـکھی امـــید بینـــائی گنــوا بـیٹھے..
چـھتوں پـر بانـــجھ پن کـا دکـھ اتـر آۓ..
اداســـی ٹھـــر جـــاتی ہے !!

کبـھی بچھـــڑے ہـؤوں کـا دکـھ..
کـسی بـھی شـــام کے ویـــرانیوںسے لـگ کـر روتـــا ہے..
شـبیں بے آرزو ہـــوکر خمـــوشی اوڑھ لیـتی ہـیں..
کـبھی جـــب دل کے نـازک تـار سے لـکھا گـیا کـوئی خــط..
کـہیں رسـتے مـیں کـھو جـاۓ..
یـا خــط کے مـنتظر خـواہش کـو کـوئی روگ لـگ جـاۓ..
جہـاں مـوقعہ نـکل آۓ..
جہـاں صـورت بـنے غـم کی..
جہـاں بے رونـقی کـا کـوئی پـہلو نـکل آۓ
وہــیں خـــیمہ لــگاتے ہیں..
اداســـی ٹھـــر جـــاتی ہے !!