بہت بے درد ہوں نا میں؟
ستاتا ہوں بہت تُم کو
رُلاتا ہوں بہت تُم کو
کہ تُم کو چھوڑ کر تنہا
خزاں لمحوں کی بانہوں میں
بہت ہی دُور سوچوں سے
یہاں پردیس آیا ہوں
مگر میں سوچتا ہوں کہ
سبھی ساون، سبھی بھادوں
کٹے جو میرے بن جاناں
وہ سب کیسے لوٹاؤں گا
کہ میں اس ہجر کی قیمت
بھلا کیسے چُکاؤں گا
کہوں گا کیا، کروں گا کیا؟
مجھے اتنا پتا دے دو؟
چلو ایسا کرو جاناں
مجھے کوئی سزا دے دو
کہ جب سونے کو من چاہے
اور ان آنکھوں کو مُوندوں میں
میری پلکوں کی گھونگٹ اُڑ کر
تُم رُوبرو آنا
میری آنکھوں میں بس جانا
ذرا بھی دُور اپنی یاد سے ہونے نہیں دینا
مجھے سونے نہیں دینا