زباں سُخن کو، سُخن بانکپن کو ترسے گا
سُخن کدہ میری طرزِ سُخن کو ترسے گا
نئے پیالے سہی تیرے دور میں ساقی
یہ دور میری شرابِ کہن کو ترسے گا
مجھے تو خیر وطن چھوڑ کے اماں نہ ملی
وطن بھی مجھ سے غریب الوطن کو ترسے گا
اُن ہی کے دم سے فروزاں ہیں مِلّتوں کے چراغ
زمانہ صحبتِ ارباب و فن کو ترسے گا
بدل سکو تو بدل دو یہ باغباں ورنہ
یہ باغ سایۂ سرو و سمن کو ترسے گا
ہوائے ظلم یہی ہے تو دیکھنا ایک دِن
زمین پانی کو، سورج کِرن کو ترسے گا
ناصر کاظمی