زخم کی بات نہ کر زخم تو بھر جاتا ہے
تیر لہجے کا کلیجے میں اتر جاتا ہے
موج کی موت ہے ساحل کا نظر آجانا
شوق کترا کے کنارے سے گزر جاتا ہے
شعبدہ کیسا دکھایا ہے مسیحائی نے
سانس چلتی ہے ، بھلے آدمی مر جاتا ہے
مندروں میں بھی تو دعائیں سنی جاتی ہیں
اشک بہہ جائیں جدھر ، مولا ادھر جاتا ہے
حسن افزا ہوئی اشکوں کی سنہری برکھا
پھول برسات میں جس طرح نکھر جاتا ہے
غالباً تخت پہ جنات کا سایہ ہوگا
کچھ تو ہے ہر کوئی آتے ہی مکر جاتا ہے
گر نہ لکھوں میں قصیدہ تو ہے تلوار اقرب
سر بچا لوں تو مرا ذوق ہنر جاتا ہے
قیس اگر آج ہیں زندہ تو جنوں زندہ باد
سوچنے والا تو اس دور میں مر جاتا ہے
شہزاد قیس