Dast-e-Taqdeer Se Har Shakhs Nay Hissa Paya,Mere Hissay Main Teray Saath Ki Hasrat Aai...!!

Wednesday, August 14, 2013

تمہارے اور میرے درمیاں


تمہارے اور میرے درمیاں اک بات ہونا تھی
بِلا کا دن نکلنا تھا بَلا کی رات ہونا تھی
بلا کا دن بھی نکلا اور بَلا کی رات بھی گزری
عذابِ ذات بھی گزرا فنائے ذات بھی گزری
o
مگر معلوم نامعلوم میں جانے نہ جانے کیوں
تمہارے اور میرے درمیاں وہ بات جانم جاں
کسی صورت نہ ہو پائی کسی صورت نہ ہو پائی
میرے دل اور میری جان کے گزرے زمانے کیوں
تمہارے اور میرے درمیاں اک بات ہونا تھی

تمہارا فیصلہ جاناں مجھے بے حد پسند آیا






تمہارا فیصلہ جاناں مجھے بے حد پسند آیا
پسند آنا ہی تھا جاناں
ہمیں اپنے سے اتنی دور تک جانا ہی تھا جاناں

بجا ہے خانماں سوز آرزوؤں ، تیرہ امّیدوں،
سراسر خوں شدہ خوابوں ، نوازش گر سرابوں،
ہاں سرابوں کی قَسم یک سر بجا ہے
اب ہمارا جان و دل کے جاوداں ، دل جان رشتے کو
اور اس کی زخم خوردہ یاد تک تو بے نیازانہ
بھُلا دینا ہی اچھا ہے
وہ سرمایا ، وہ دل سے بے بہا تر جاں کا سرمایا
گنوا دینا ہی اچھا ہے
زیانِ جاودانی کے گلہ افروز داغوں کو
بجھا دینا ہی اچھا ہے
تمہارا فیصلہ جاناں! مجھے بےحد پسند آیا۔ ۔ ۔

تم مجھے بتاؤ تو۔۔۔


تم نے مجھ کو لکھا ہے، میرے خط جلا دیجے
مجھ کو فکر رہتی ہے آپ انہیں گنوا دیجے
آپ کا کوئی ساتھی دیکھ لے تو کیا ہو گا
دیکھیے میں کہتی ہوں یہ بہت بُرا ہو گا

o
میں بھی کچھ کہوں تم سے اے مری فروزینہ
زشکِ سروِ سیمینا
اے بہ نازُکی مینا
اے بہ جلوہ آئینہ
میں تمہارے ہر خط کو لوحِ دل سمجھتا ہوں
لوحِ دل جلا دوں کیا
سطر سطر ہے ان کی، کہکشاں خیالوں کی
کہکشاں لُٹا دوں کیا
جو بھی حرف ہے ان کا ، نقشِ جانِ شیریں ہے
نقشِ جاں مٹا دوں کیا
ان کا جو بھی نقطہ ہے، ہے سوادِ بینائی
میں انہیں گنوا دوں کیا
لوحِ دل جلا دوں کیا
کہکشاں لُٹا دوں کیا
نقشِ جاں مٹا دوں کیا
o
مجھ کو ایسے خط لکھ کر اپنی سوچ میں شاید
جرم کر گئی ہو تم
اور خیال آنے پر اس سے ڈر گئی ہو تم
جُرم کے تصور میں گر یہ خط لکھے تم نے
پھر تو میری رائے میں جُرم ہی کئے تم نے
اے مری فروزینہ!
دل کی جانِ زرّینا!
رنگ رنگ رنگینا!
بات جو ہے وہ کیا ہے
تم مجھے بتاؤ تو ۔۔۔۔۔
میں تمہیں نہیں سمجھا
تم سمجھ میں آؤ تو
جُرم کیوں کیے تم نے
خط ہی کیوں لکھے تم نے

اجنبی شام


دھند چھائی ہوئی ہے جھیلوں پر
اُڑ رہے ہیں پرند ٹیلوں پر
سب کا رُخ ہے نشیمنوں کی طرف
بستیوں کی طرف بنوں کی طرف
اپنے گلوں کو لے کر چرواہے
سرحدی بستیوں میں جا پہنچے
دلِ ناکام! میں کہاں جاؤں؟
دلِ ناکام! میں کہاں جاؤں؟

اس رائیگانی میں



سو وہ آنسو ہمارے آخری آنسو تھے
جو ہم نے گلے مل کر بہائے تھے
نہ جانے وقت ان آنکھوں سے پھر کس طور پیش آیا
مگر میری فریب وقت کی بہکی ہوئی آنکھوں نے
اس کے بعد بھی
آنسو بہائے ہیں
مرے دل نے بہت سے دکھ رچائے ہیں
مگر یوں ہے کہ ماہ و سال کی اس رائیگانی میں
مری آنکھیں
گلے ملتے ہوئے رشتوں کی فرقت کے وہ آنسو

انگارے


تم
تمہارا نام
لیکن میں نے یہ نام پہلی بار تم سے ہی سُنا ہے
کون ہو تم
کون تھیں تم
اب رہا میں یعنی میں
میں تو کبھی تھا ہی نہیں
تھا ہی نہیں میں
اور سارے کاغذوں پر صرف انگارے لکھے ہیں
صرف انگارے

معمول


جانے کب سے
مجھے یاد بھی تو نہیں جانے کب سے
ہم اک ساتھ گھر سے نکلتے ہیں
اور شام کو
ایک ہی ساتھ گھر لوٹتے ہیں
مگر ہم نے اک دوسرے سے
کبھی حال پرسی نہیں کی
نہ اک دوسرے کو
کبھی نام لے کر مخاطب کیا
جانے ہم کون ہیں؟

بے قراری سی بے قراری ہے





بے قراری سی بے قراری ہے
 وصل ہے اور فراق طاری ہے

جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے


بِن تمہارے کبھی نہیں آئی
کیا میری نیند بھی تمھاری ہے



اس سے کہیو کہ دل کی گلیوں میں
رات دن تیری انتطاری ہے


ایک مہک سمت دل سے آئی تھی
میں یہ سمجھا تیری سواری ہے



خوش رہے تُو کہ زندگی اپنی
عمر بھر کی امیدواری ہے

Sunday, March 31, 2013

صدمہ تو ہے مجھے بھی تجھ سے جدا ہوں میں




صدمہ تو ہے مجھے بھی تجھ سے جدا ہوں میں
لیکن یہ سوچتا ہوں کہ اب تیرا کیوں ہوں میں

بکھرا پڑا ہے تیرے ہی گھر میں تیرا وجود
بیکار تجھے محفلوں میں ڈھونڈتا ہوں میں

میں خودکشی کے جرم کا کرتا ہوں اعتراف
اپنے بدن کی قبر میں کب سے گڑا ہوں میں

کس کس کا نام لوں زباں پر کہ تیرے ساتھ
ہر روز ایک شخص نیا دیکھتا ہوں میں

لے میرے تجربوں سے سبق اے میرے رقیب
دو چارسال عمر میں تجھ سے بڑا ہوں میں

جاگا ہوا ضمیر وہ آئینہ ہے قتیل
سونے سے پہلے روز جسے دیکھتا ہوں میں

قبر کو پھولوں سے سجا کر جاتے تو اچھا تھا



قبر کو پھولوں سے سجا کر جاتے تو اچھا تھا
دل کو قبر بنا کر جاتے تو اچھا تھا
ارمانوں کو اس میں دفنا کر جاتے تو اچھا تھا

جدائی کی سزا بڑی تکلیف دیتی ہے
مجھے دیواروں میں چنوا کر جاتے تو اچھا تھا

تمہارے بعد ان حسرتوں کا کیا ہوگا
انہیں کفن پہنا کر جاتے تو اچھا تھا

یوں روتا چھوڑ کر نا جاتے تو اچھا تھا
میرے دل کو بہلا کر جاتے تو اچھا تھا

تیری خاطر چھوڑ سکتے تھے زمانے کو
ایک بار ہمیں آزما کر جاتے تو اچھا تھا

یوں دوستی پر داغ لگا کر نا جاتے
رسمے - دوستی نبھا کر جاتے تو اچھا تھا

میری میّت پر شرکت تو نا کر سکے لیکن
قبر کو پھولوں سے سجا کر جاتے تو اچھا تھا

ہماری آنکھوں سے نیند چورا کر چلے گئے
میٹھی نیند سلا کر جاتے تو اچھا تھا

ساگر کو اندھیروں میں یوں چھوڑ گئے
دیپ کوئی جلا کر جاتے تو اچھا تھا

پھول چاہے تھے مگر ہاتھ میں آئے پتھر





پھول چاہے تھے مگر ہاتھ میں آئے پتھر
ہم نے آغوشِ محبت میں سلائے پتھر

دشتِ دل کے تکلف کی ضرورت کے لیے
آج اس شوخ نے زلفوں میں سجائے پتھر

انکے قدموں کے تلے چاند ستارے دیکھے
اپنی راہوں میں سلگتے ہوئے پتھر

میں تیری یاد میں یوں دل کو لیے پھرتا ہوں
جیسے فرہاد نے سینے سے لگائےپتھر

فکرِ ساغر کے خریدار نہ بھولیں گے کبھی
میں نے اشکوں کے گہر تھے جو بنائے پتھر