Dast-e-Taqdeer Se Har Shakhs Nay Hissa Paya,Mere Hissay Main Teray Saath Ki Hasrat Aai...!!

Monday, June 13, 2011

ہم نے کاٹی ہیں تری یاد میں راتیں اکثر


ہم نے کاٹی ہیں تری یاد میں راتیں اکثر
دل سے گزری ہیں تاروں کی باراتیں اکثر

عشق راہزن نہ سہی عشق کے ہاتھوں اکثر
ہم نے لٹتی ہوئی دیکھی ہیں باراتیں اکثر

ہم سے اک بار بھی جیتا ہے نہ جیتے گا کوئی
وہ تو ہم جان کے کھا لیتے ہیں ماتیں اکثر

ان سے پوچھو کبھی چہرے بھی پڑھے ہیں تم نے
جو کتابوں کی کیا کرتے ہیں باتیں اکثر

حال کہنا ہو کسی سے تو مخاطب ہے کوئی
کتنی دلچسپ ہوا کرتی ہیں باتیں اکثر

اور تو کون ہے جو مجھ کو تسلی دیتا
ہاتھ رکھ دیتی ہیں دل پر تری باتیں اکثر

جاں نثار اختر

ہر اِک چلن میں اُسی مہربان سے ملتی ہے


ہر اِک چلن میں اُسی مہربان سے ملتی ہے
زمیں ضرور کہیں آسماں سے ملتی ہے

ہمیں تو شعلہِ خرمن فروز بھی نہ ملا
تِری نظر کو تجلّی کہاں سے ملتی ہے؟

تِری نظر سے آخر عطا ہوئی دل کو
وہ اِک خلِش کہ غمِ دو جہاں سے ملتی ہے

چلے ہیں سیف وہاں ہم علاجِ غم کے لیے
دلوں کو درد کی دولت جہاں سے ملتی ہے

سیف الدین سیف

اِک سمندر ہے اور بھنور کتنے


اِک سمندر ہے اور بھنور کتنے
جانے درپیش ہیں سفر کتنے

وہ زمانے تیری رفاقت کے
آج لگتے ہیں مختصر کتنے

ہم کو اس راہگزارِ ہستی میں
سُکھ کے سائے ملے، مگر کتنے

حرفِ حق کی تلاش میں اکثر
لوگ پھرتے ہیں در بدر کتنے

موت کا مُدعا نہیں کُھلتا
دل میں بیٹھے ہوئے ہیں ڈر کتنے

اِک قلم ہے، ہزار تحریریں
ایک رستے میں ہیں سفر کتنے

ہم سمجھتے ہیں باخبر جن کو
وہ بھی ہوتے ہیں بے خبر کتنے

کرامت بخاری

Tuesday, June 7, 2011

عمرگزرے گی امتحان میں کیا


عمرگزرے گی امتحان میں کیا
داغ ھی دیں گے مجھ کو دان میں کیا
میری ہربات بے اثر ہی رہی
نقص ھے کچھ مرے بیان میں کیا
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
اپنی محرومیاں چھپاتےہیں
ہم غریبوں کی آن بان میں کیا
وہ ملے تو یہ پوچھنا ہے مجھے
اب بھی ھوں میں تری امان میں کیا
یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا
ہے نسیم بہار گرد آلود
خاک اڑتی ہے اس مکان میں کیا
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا

جون ایلیا

کس کو گماں ھے اب کہ مرے ساتھ تم بھی تھے


کس کو گماں ھے اب کہ مرے ساتھ تم بھی تھے
ہائے وہ روز وشب کہ مرے ساتھ تم بھی تھے

یادش بخیر عہدِ گزشتہ کی صحبتیں
اک دور تھا عجبکہ مرے ساتھ تم بھی تھے

بے مہری حیات کی شدت کے باوجود
دل مطمئن تھا جب کہ مرے ساتھ تم بھی تھے

میں اور تقابل غمِ دوراں کا حوصلہ
کچھ بن گیا سبب کہ مرے ساتھ تم بھی تھے

اک خواب ہو گئی ھے رہ ورسمِ دوستی
اک وہم سا ھے اب کہ مرے ساتھ تم بھی تھے

وہ بزمِ دوست یاد توہو گی تمہیں فراز
وہ محفلِ طرب کہ مرے ساتھ تم بھی تھے

جانے ہےکیسی اُسکی محبت کی انتہا


رکھتا ہے مجھے تھام کہ گرنے نہیں دیتا
میں ٹوٹ بھی جاؤں تو بکھرنے نہیں دیتا

اس ڈر سے کہیں کانٹا نہ چُب جائے ہاتھ میں
وہ پھول بھی مجھ کو پکڑنے نہیں دیتا

وہ اس قدر حساس محبت میں ہے میری
کوئی غم میرے سینے میں وہ پلنےنہیں دیتا

جس رات کی تاریکی سے آتا ہے مجھے خوف
اس دن کو وہ پھر رات میں ڈھلنے نہیں دیتا

جانے ہےکیسی اُسکی محبت کی انتہا
کہ خود کو بھی بندھنوں میں بندھنے نہیں دیتا

آنکھ میں بوند نہ ہو دل میں سمندر رکھنا


آنکھ میں بوند نہ ہو دل میں سمندر رکھنا
دولتِ درد کو دنیا سے چھپا کر رکھنا

کل گئے گذرے زمانوں کو خیال آئے گا
آج اتنا بھی نہ راتوں کو منور رکھنا

اپنی آشفتہ مزاجی پہ ہنسی آتی ہے
دشمنی سنگ سے اور کانچ کا پیکر رکھنا

آس کب نہیں تھی دل کو تیرے آ جانے کی
پر نہ ایسی کہ قدم گھر سے نہ باہر رکھنا

ذکر اس کا ہی سہی بزم میں بیٹھے ہو فراز
درد کیسا ہی اٹھے ہاتھ نہ دل پر رکھنا

بچھڑ کے تجھ سے تیری یاد کے نگر آئے


بچھڑ کے تجھ سے تیری یاد کے نگر آئے
کہ اک سفر سے کوئی جیسے اپنے گھر آئے

ہمارے ساتھ رکے گی ہماری تنہائی
تمہارے ساتھ گئے جو بھی در بدر آئے

گماں بھٹکنے لگے تھے پسِ نگاہ مگر
چراغ دور سے جلتے ہوئے نظر آئے

چھٹہ غبار تو راہوں میں کتنے پھول کِھلے
بجی جو ڈف تو فصیلوں پہ کتنے سر آئے

بہار راس نہ آئی قفس نشانوں کو
اڑان بھول گئے جوں ہی بال و پر آئے

شاعر : ذاہد مسعود

یادِ جاناں سے کوئی شام نہ خالی جائے



دل گِرفتاں ہی سہی بزّم سجا لی جائے
یادِ جاناں سے کوئی شام نہ خالی جائے

رفتہ رفتہ یہی ذنداں میں بدل جاتے ہیں
اب کسی شہر کی بُنیاد نہ ڈالی جائے

مصحفِ رخُ ہے کِسی کا کہ بیاضِ حافظ
ایسے چہرے سے تو بس فعال نکالی جائے

وہ مُّروت سے ملا ہے تو جُھکا لُوں گردن
میرے دشمن کا کوئی وار نہ خالی جائے

بے نوا سِحر کا سایہ ہے میرے دل پہ فراز
کس طرح سے میری آشفتہ خیالی جائے




شاعر: احمد فراز

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Monday, June 6, 2011

...نہ ھو


میرے ساتھ تم بھی کرو دعا یوں کسی کے حق میں برا نہ ھو
کہیں اور ھو نہ یہ حادثہ کوئی راستے میں جدا نہ ھو

سر شام ٹھہری ھوئی زمیں جہاں*آسماں ھے جھکا ھوا
اسی موڑ پر مرے واسطے وہ چراغ لے کے کھڑا نہ ھو

مری چھت سے رات کی سیج تک کوئی آنسوؤں*کی لکیر ھے
ذرا بڑھ کے چاند سے پوچھنا وہ اسی طرف سے گیا نہ ھو

مجھے یوں لگا کہ خموش خوشبو کے ھونٹ تتلی نے چھو لیے
انہیں زرد پتوں کی اوٹ میں کوئی پھول سویا ھوا نہ ھو

اسی احتیاط میں وہ رھا اسی احتیاط میں میں رھا
وہ کہاں کہاں مرے ساتھ ھے کسی اور کو یہ خبر نہ ھو

وہ فرشتے آپ تلاش کریں کہانیوں کی کتاب میں
جو برا کہیں نہ برا سنیں کوئی شخص ان سے خفا نہ ھو

وہ فراق ھو کہ وصال ھو تری آگ مہکے گی ایک دن
وہ گلاب بن کے کھلے گا کیا جو چراغ بن کے جلا نہ ھو