Dast-e-Taqdeer Se Har Shakhs Nay Hissa Paya,Mere Hissay Main Teray Saath Ki Hasrat Aai...!!
Friday, April 29, 2011
.... بدگُمانی
دُشمنِ جاں کئی قبیلے ہُوئے
پھر بھی خُوشبو کے ہاتھ پِیلے ہُوئے
بدگُمانی کے سَرد موسم میں
میری گُڑیا کے ہاتھ نِیلے ہُوئے
جب زمیں کی زباں چٹخنے لگی
تب کہیں بارشوں کے حیلے ہُوئے
وقت نے خاک وہ اُڑائی ہے
شہر آباد تھے جو ٹِیلے ہُوئے
جب پرندوں کی سانس رُکنے لگی
تب ہُواؤں کے کچھُ وسیلے ہُوئے
کوئی بارش تھی بدگُمانی کی
سارے کاغذ ہی دِل کے گَیلے ہُوئے
... واہمے
واہمے سارے تیرے اپنے ہیں
ہم کہاں تجھ کو بھول سکتے ہیں
میری آنکھوں میں ایک مدت سے
قافلے رُت جگوں کے ٹھہرے ہیں
سر برہنہ ہواؤں سے پوچھو
ذائقے ہجرتوں کے کیسے ہیں
باز اوقات خشک پتے بھی
پاؤں پڑتے ہی چیخ اٹھتے ہیں
عشق کے خوش گمان موسم میں
پتھروں میں گلاب کھلتے ہیں
...جذبے
سبھی جذبے بدلتے جا رہے ہیںکہ جیسے خواب مرتے جا رہے ہیں
کوئی دن کے لیئے دل کے مکیں کونظر انداز کرتے جا رہے ہیں
جو دل کا حال ہے دل جانتا ہےبظاہر تو سنبھلتے جا رہے ہیں
چلے تو ہیں تمہارے شہر سے ہمکفِ افسوس ملتے جا رہے ہیں
کبھی جن میں غرور ِ تازگی تھاوہ خد و خال ڈھلتے جا رہے ہیں
.... محبت کی اسیری
محبت کی اسیری سے رہائی مانگتے رہنا
بہت آساں نہیں ہوتا جدائی مانگتے رہنا
ذرا سا عشق کر لینا،ذرا سی آنکھ بھر لینا
عوض اِس کے مگر ساری خدائی مانگتے رہنا
کبھی محروم ہونٹوں پر دعا کا حرف رکھ دینا
کبھی وحشت میں اس کی نا رسائی مانگتے رہنا
وفاؤں کے تسلسل سے محبت روٹھ جاتی ہے
کہانی میں ذرا سی بے وفائی مانگتے رہنا
عجب ہے وحشت ِ جاں بھی کہ عادت ہو گئی دل کی
سکوتِ شام ِ غم سے ہم نوائی مانگتے رہنا
کبھی بچے کا ننھے ہاتھ پر تتلی کے پر رکھنا
کبھی پھر اُس کے رنگوں سے رہائی مانگتے رہنا
...عشق کی انتہا
ہجر کی بد دعا نہ ہو جانا
دیکھ لینا،سزا نہ ہو جانا
موڑ تو بے شمار آئیں گے
تھک نہ جانا،جدا نہ ہو جانا
عشق کی انتہا نہیں ہوتی
عشق کی انتہا نہ ہو جانا
آخر شب اداس چاند کے ساتھ
ایک بجھتا دِیا نہ ہو جانا
بے ارادہ سفر پہ نکلے ہو
راستوں کی ہوا نہ ہو جانا
زندگی درد سے عبارت ہے
زندگی سے خفا نہ ہو جانا
اِ ک تمہی کو خدا سے مانگا ہے
تم کہیں بے وفا نہ ہو جانا
... خواب کے قیدی
خواب کے قیدی رہے تو کچھ نظر آتا نہ تھاجب چلے تو جنگلوں میں راستہ بنتا گیا
تہمتیں تو خیر قسمت تھیں مگر اس ہجر میںپہلے آنکھیں بجھ گیئں اور اب چہرہ گیا
ہم وہ محرومِ سفر ہیں دشتِ خواہش میں جنہیںاک حصارِ درو دیوار میں رکھا گیا
بر ملا سچ کی جہاں تلقین کی جاتی رہیپھر وہاں جو لوگ سچے تھے انہیں روکا گیا
ہم وہ بے منزل مسافر ہیں جنہیں ہر حال میںہم سفر رکھا گیا اور بے نوا رکھا گیا
کھا گیا شوقِ زورِ بزم آرائی اسےصاحبِ فہم و فراست تھا مگر تنہا گیا
....باقی رہ گئی ہے
سخن آرائی باقی رہ گئی ہےیہی سچائی باقی رہ گئی ہے
سجانا چاہتے تھے محفل ِ دلمگر تنہائی باقی رہ گئی ہے
مجھے بھی شوقِ منزل تھا مگر ابشکستہ پائی باقی رہ گئی ہے
غرور ِ زندگی بننے کو اب تومِری رسوائی باقی رہ گئی ہے
زمیں کے سارے منظر چھپ گئے ہیںمگر بینائی باقی رہ گئی ہے
...عرضِ سوال
عشق کرو تو یہ بھی سوچو عرضِ سوال سے پہلے
ہجر کی پوری رات آتی ہے صبحِ وصال سے پہلے
دل کا کیا ہے دل نے کتنے منظر دیکھے لیکن
آنکھیں پاگل ہو جاتی ہیں ایک خیال سے پہلے
کار_محبت ایک سفر ہے جس میں آ جاتا ہے
ایک زوال آثار سا رستہ بابِ کمال سے پہلے
کس نے ریت اڑائی شب میں آنکھیں کھول کے رکھیں
کوئی ایک مثال تو دو نا اس کی مثال سے پہلے
عشق میں ریشم جیسے وعدوں اور خوابوں کا رستہ
جتنا ممکن ہو طے کرلیں گردِ ملال سے پہلے
...بچھڑنے کے وسوسے
یہ جو ہم سفر میں بھی گھر سا اک بناتے ہیںریت کے سمندر میں کشتیاں جلاتے ہیں
جن پہ فاختاؤں کے گیت پھول بنتے ہیںآؤ ان درختوں پر نام لکھ کے آتے ہیں
اس کے لوٹ آنے کا خواب دیکھتی آنکھیںشام سے دریچے میں رکھ کے بیٹھ جاتے ہیں
پہلے ساتھ چلنے سے دل کو خوف آتا تھااور اب بچھڑنے کے وسوسے ڈراتے ہیں
وحشتوں کے صحرا میں کون یہ بتائے گاکس کو یاد رکھتے ہیں، کس کو بھول جاتے ہیں
Subscribe to:
Posts (Atom)