Dast-e-Taqdeer Se Har Shakhs Nay Hissa Paya,Mere Hissay Main Teray Saath Ki Hasrat Aai...!!

Tuesday, May 29, 2012

محبت کا یہ انجام تو ہے

دیکھ کر لوگ مجھے نام تیرا لیتے ہیں 
اس پہ میں خوش ہوں محبت کا یہ انجام تو ہے

فراز اتنا بھی آساں نہ تھا سنبھل جانا

ہر ایک عشق کے بعد اور اُس کے عشق کے بعد
فراز اتنا بھی آساں نہ تھا سنبھل جانا

پرفریب ھے وعدہ ترا


مانا کہ پرفریب ھے وعدہ ترا مگر
کرتے ھیں انتظار بڑے اعتبار سے

نام بھی میرا بھول گیا


اک عرصے کے بعد ملا تو نام بھی میرا بھول گیا
جاتے جاتے جسنے کہا تھا یاد بہت تم آئو گے

فراق

تیرے فراق میں مجھ پر جو سانحے گذرے
اگر وہ دن پہ گذرتے تو رات ھو جاتی

کچھ لوگ

مل جایئں تو جیون سجا دیتے ھیں لیکن
بچھڑیں تو دعاؤں سے بھی نھیں ملتے کچھ لوگ

غم الفت

غم الفت میرے چہرے سے عیاں* کیوں *نہ ہوا
آگ جب دل میں سلگتی تھی، دھواں کیوں نہ ہوا

تیرے سارے غم مجھے محترم


تیرے ساتھ بھی تیری ہر جفا مجھے معتبر
تیرے سارے غم مجھے محترم تیرے بعد بھی

نادان لڑکی


یہی باتیں تو مجھے جانے نہیں دیتیں
نادان لڑکی کبھی دل کو آرام بھی دو

عجب دیوانی لڑکی ہے


نہیں سنھبال سکی اپنی یادوں کے خزانے کو 
عجب دیوانی لڑکی ہے کچھ کھونا نہیں چاہتی

انجان


یہ جو تم سے میں انجان بنا پھرتا ھوں
ساری بات اسی انجانے پن میں ھے

یاد


یاد کے شعلوں پہ جلتا ھے ۔۔۔۔ اگر میرا بدن
اوڑھ کر پھولوں کی چادر تو بھی سو سکتا نہیں

یہ نادان سی جو لڑکی ہے


یہ محبتوں کی مثال ہے
یہ چاہتوں سے نہال ہے

یہ نادان سی جو لڑکی ہے
اس سے زندگی بحال ہے

Monday, May 21, 2012

میرے تن کے زخم نہ گن


میرے تن کے زخم نہ گن ابھی میری آنکھ میں ابھی نور ہے 
میرے بازؤؤں پہ نگاہ کر ، جو غرور تھا وہ غرور ہے 

ابھی رزم گاہ کے درمیاں ہے میرا نشاں کھلا ہوا 
ابھی تازہ دم ہے میرا فرض نئے معرکوں پہ تلا ہوا 

مجھے دیکھ قبضہ تیغ پر ابھی میرے ہاتھ کی گرفت ہے 
بڑا منتقم ہے میرا لہو یہ میرے نسب کی سرشت ہے 

میں اسی قبیلے کا فرد ہوں جو حریفِ سیلِ بلا رہا 
اسے مرگزار کا خوف کیا جو کفن بدوش سدا رہا 

میرے غنیم نہ بھول تو کہ ستم کی شب کو زوال ہے 
تیرا جبر ظلم بلا سہی میرا حوصلہ بھی کمال ہے 

تجھے ناز جو سن و گرز پر مجھے ناز اپنے بدن پر ہے 
وہی نامہ بر ہے بہار کا ، جو گلاب میرے کفن پر ہے

اعتراف‎


مجھ کو بھی ترکیب سکھا کوئی یار جلا ہے
اکثر تجھ کو دیکھا ہے تانا بنتے
جب کوئی دھاگا ٹوٹ گیا یا ختم ہوا
پھر سے باندھ کے
اور سرا کوئی جوڑ کے اس میں
آگے بنتے لگتے ہو
تیرے اس تانے میں لیکن
ایک بھی گانٹھ گرہ بنترکی
کوئی دیکھ نہیں سکتا
میںنے تو ایک بار بنا تھا ایک ہی رشتہ
لیکن اس کی ساری گرہیں صاف نظر آتی ہیں
میرے یار جلا ہے‎

میرے معصوم قاتل تجھے کیا کہیں



میرے معصوم قاتل تجھے کیا کہیں

قتل گہ میں تیرا نقش پَا بھی نہیں

تُو میرے خوں بہا کا تکلّف نہ کر

تیرے ہاتھوں میں رنگِ حنا بھی نہیں

Wednesday, May 9, 2012

سوچتا ہوں کہ بہت سادہ و معصوم ہے وہ

سوچتا ہوں کہ بہت سادہ و معصوم ہے وہ
میں ابھی اس کو شناسائے محبت نہ کروں
روح کو اس کی اسیر ِغم ِالفت نہ کروں
اس کو رسوا نہ کروں، وقفِ مصیبت نہ کروں

سوچتا ہوں کہ ابھی رنج سے آزاد ہے وہ
واقفِ درد نہیں، خوگر ِآلام نہیں
سحر عیش میں اس کی اثر ِشام نہیں
زندگی اس کے لیے زہر بھرا جام نہیں!

سوچتا ہوں کہ محبت ہے جوانی کی خزاں
اس نے دیکھا نہیں دنیا میں بہاروں کے سوا
نکہت و نور سے لبریز نظاروں کے سوا
سبزہ زاروں کے سوا اور ستاروں کے سوا

سوچتا ھوں کہ غم ِدل نہ سناؤں اس کو
سامنے اس کے کبھی راز کو عریاں نہ کرو
خلش دل سے اسے دست و گریباں نہ کروں
اس کے جذبات کو میں شعلہ بداماں نہ کروں

سوچتا ھوں کہ جلا دے گی محبت اس کو
وہ محبت کی بھلا تاب کہاں لائے گی
خود تو وہ آتش جذبات میں جل جائے گی
اور دنیا کو اس انجام پہ تڑپائے گی

سوچتا ھوں کہ بہت سادہ و معصوم ہے وہ
میں اسے واقف الفت نہ کروں

ن م راشد

اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں

اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں
اب میں کچھ اور بھی آسان ہوں دشواری میں

کتنی زرخیز ہے نفرت کے لیے دل کی زمیں
وقت لگتا ہی نہیں فصل کی تیاری میں

اک تعلق کو بکھرنے سے بچانے کے لیے
میرے دن رات گزرتے ہیں اداکاری میں

وہ کسی اور دوا سے مرا کرتا ہے علاج
مبتلا ہوں میں کسی اور ہی بیماری میں

اے زمانے میں ترے اشک بھی رو لوں گا ، مگر
ابھی مصروف ہوں خود اپنی عزاداری میں

اس کے کمرے سے اٹھا لایا ہوں یادیں اپنی
خود پڑا رہ گیا لیکن کسی الماری میں

اپنی تعمیر اٹھاتے تو کوئی بات بھی تھی
تم نے اک عمر گنوادی مری مسماری میں

ہم اگر اور نہ کچھ دیر ہوا دیں ، تو یہ آگ
سانس گھٹنے سے ہی مر جائے گی چنگاری میں

تم بھی دنیا کے نکالے ہوئے لگتے ہو ظہیر
میں بھی رہتا ہوں یہیں ، دل کی عملداری میں

اُسںے بہت رُولایا مجھے اِک بار ہنسا کر

اُسںے بہت رُولایا مجھے اِک بار ہنسا کر
جو چلا گیا میرے دل کی بستی کو سجا کر


کیسے بُھولا دوں وہ قرارِ جفا اپنے
مجھے آتا نہیں گُزر جانا خونِ وفا بہا کر


بڑی اُجڑی سی دُنیا ہے گلستانِ دل کی
کوئی گُلِ زیبا کِھلے اے بُلبُل توہی دُعا کر


ہم سے بُرا نہیں ہوگا کوئی جہاں میں
تو مُعزِز ہے زمانے کا ہم سے دُور رہا کر


غلط رستوں سے ہیں روابط میرے
تو اگر میرا ہے تو مجھے آ کر منع کر


تاریکیوں سے دل اکتا گیا ہے خدایا
میری زِیست میں اَب کوئی صُبح کر


اپنی دولتِ عشق پر مجھے یقیں ہے فائز
وہ لَوٹے گا میرے ساتھ رہے گا نئی دُنیا بسا کر

دل کی بستی کے چلو آج سفیروں سے ملیں

دل کی بستی کے چلو آج سفیروں سے ملیں
آو الفت میں گرفتار اسیروں سے ملیں

ہونے والا ہے جو شائد کہ پتا چل جائے
اپنے ہاتھوں میں سجی آج لکیروں سے ملیں

چل چلیں خاک میں لپٹی ہوئی بستی کی طرف
شان دیکھی ہے بہت آج فقیروں سے ملیں

ہر طرف تیرگی پھیلی ہے جہاں تک دیکھو
کچھ اُجالا ہی کریں آو منیروں سے ملیں

غور کر لیں کے ہمارے لئے بہتر کیا ہے
بات آئے نہ سمجھ میں تو مشیروں سے ملیں

دشمنوں سے تو توقع ہی نہیں کر سکتے
ہے بھلائی کی تمنا تو ظہیروں سے ملیں

اُن کے بس کا یہ نہیں روگ یقینا اظہر
وقت ظائع نہ کریں آپ قدیروں سے ملیں

ﮐﻮﻥ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ

ﻻﮐﮫ ﺿﺒﻂ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﮯ
ﺑﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﺩﻋﻮﮮ ﮨﻮﮞ
ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ
ﺑﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﺍﺭﺍﺩﮮ ﮨﻮﮞ
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﻮ ﺗﺮﮎ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺟﯿﻨﮯ
ﮐﺎ
ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺳﻨﺎﻧﮯ ﮐﻮ
ﮐﺘﻨﮯ ﻟﻔﻆ ﺳﻮﭼﮯ ﮨﻮﮞ
ﺩﻝ ﮐﻮ ﺍﺳﮑﯽ ﺁﮨﭧ ﭘﺮ
ﺑﺮ ﻣﻼ ﺩﮬﮍﮐﻨﮯ ﺳﮯ ﮐﻮﻥ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﺎ
ﮨﮯ
ﭘﮭﺮ ﻭﻓﺎ ﮐﮯ ﺻﺤﺮﺍ ﻣﯿﮟ
ﺍﺱ ﮐﮯ ﻧﺮﻡ ﻟﮩﺠﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﮔﻮﺍﺭ
ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﯽ
ﺧﻮﺷﺒﻮﺅﮞ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﻧﮯ ﮐﯽ
ﺟﺴﺘﺠﻮ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﺳﮯ
ﺭﻭﺡ ﺗﮏ ﭘﮕﮭﻠﻨﮯ ﺳﮯ
ﻧﻨﮕﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﭼﻠﻨﮯ ﺳﮯ
ﮐﻮﻥ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ
ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﺵ ﻣﯿﮟ
ﭼﺎﮨﮯ ﺩﻝ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮨﺠﺮ ﮐﮯ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﮐﮯ
ﭘﺎﺅﮞ ﺗﮏ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﻮ ﺁﺅ
ﺟﺲ ﮐﻮ ﻟﻮﭦ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﻮ
ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﻭﺭ ﺟﺎﻧﮯ ﺳﮯ
ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺑﺪﻟﻨﮯ ﺳﮯ
ﺩﻭﺭ ﺟﺎ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﺳﮯ
ﮐﻮﻥ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ

ہر بار میرے سامنے آتی رہی ہو تم


ہر بار میرے سامنے آتی رہی ہو تم
ہر بار تم سے مل کے بچھڑتا رہا ہوں میں
تم کون ہو یہ خود بھی نہیں جانتی ہو تم
میں کون ہوں یہ خود بھی نہیں جانتا ہوں میں
تم مجھ کو جان کر ہی پڑی ہو عذاب میں
اور اسطرح خود اپنی سزا بن گیا ہوں میں

تم جس زمین پر ہو میں اُس کا خدا نہیں
پس سر بسر اذیت و آزار ہی رہو
بیزار ہو گئی ہو بہت زندگی سے تم
جب بس میں کچھ نہیں ہے تو بیزار ہی رہو
تم کو یہاں کے سایہ و پرتو سے کیا غرض
تم اپنے حق میں بیچ کی دیوار ہی رہو

میں ابتدائے عشق سے بے مہر ہی رہا
تم انتہائے عشق کا معیار ہی رہو
تم خون تھوکتی ہو یہ سُن کر خوشی ہوئی
اس رنگ اس ادا میں بھی پُر کار ہی رہو

میں نے یہ کب کہا تھا محبت میں ہے نجات
میں نے یہ کب کہا تھا وفادار ہی رہو
اپنی متاعِ ناز لُٹا کر مرے لیئے
بازارِ التفات میں نادار ہی رہو

جب میں تمہیں نشاطِ محبت نہ دے سکا
غم میں کبھی سکونِ رفاقت نہ دے سکا
جب میرے سب چراغِ تمنا ہوا کے ہیں
جب میرے سارے خواب کسی بے وفا کے ہیں
پھر مجھ کو چاہنے کا تمہیں کوئی حق نہیں
تنہا کراہنے کا تمہیں کوئی حق نہیں

جون ايليا

عجب دن تھے محبت کے


عجب دن تھے محبت کے
عجب موسم تھے چاہت کے
کبھی گر یاد آ جائیں
تو پلکوں پر ستارے جھلملاتے ھیں
کسی کی یاد میں راتوں کو
اکثر جاگنا معمول تھا اپنا
کبھی گر نیند آ جاتی تو ہم یہ سوچنے لگتے
ابھی تو وہ ہمارے واسطے رویا نہیں ہو گا
ابھی سویا نہیں ہو گا
ابھی ہم بھی نہیں روتے
ابھی ہم بھی نہیں سوتے
سو پھر ہم جاگتے تھے اور اسکو یاد کرتے تھے
اکیلے بیٹھ کر ویران دل آباد کرتے تھے
ہمارے سامنے تاروں کے جھرمٹ میں
اکیلا چاند ہوتا تھا
جو اس کے حسن کے آگے بہت ہی ماند ہوتا تھا
فلک پر رقص کرتے انگنت روشن ستاروں کو
جو ہم ترتیب دیتے تھے
تو اس کا نام بنتا تھا
ہم اگلے روز جب ملتے تو
گزری رات کی بے کلی کا ذکر کرتے تھے
ہر اک قصہ سناتے تھے
کہاں کس وقت
کس طرح سے دل دھڑکا بتاتے تھے
میں جب کہتا کے
جاناں آج تو میں رات کو اک پل نہیں سویا
تو وہ خاموش رہتی تھی
مگر اس کی نیند میں ڈوبی ہوئی دو جھیل سی آنکھیں
اچانک بول اٹھتی تھیں
میں جب اس کو بتاتا تھا کہ
میں نے رات کو روشن ستاروں میں
تمہارا نام دیکھا ھے
تو وہ کہتی تم جھوٹ کہتے ہو
ستارے میں نے دیکھے تھے
اور ان روشن ستاروں میں تمہارا نام لکھا تھا
عجب معصوم لڑکی تھی مجھے کہتی تھی
لگتا ھے کہ اب اپنے ستارے
مل ہی جائیں گئے
مگر اسکو کیا خبر تھی
کنارے مل نہیں سکتے
محبت کرنے والوں کے
ستارے مل نہیں سکتے

عاطف سعید

Tuesday, May 8, 2012

ہے محبت کا سِلسلہ کچھ اور


ہے محبت کا سِلسلہ کچھ اور
درد کُچھ اور ہے دَوا کُچھ اور
غم کا صحرا عجیب صحرا ہے
جتنا کاٹا یہ بڑھ گیا کُچھ اور
بھیڑ میں آنسوؤں کی سُن نہ سکا
تم نے شاید کہا تو تھا کچھ اور
کم نہیں وصل سے فراق ترا
اِس زیاں میں ہے فائدہ کُچھ اور
دل کِسی شے پہ مُطمئن ہی نہیں
مانگتا ہے یہ اژدہا، کُچھ اور
تیرے غم میں حسابِ عُمر رواں
جتنا جوڑا، بِکھر گیا کُچھ اور
وصل کی رات کاٹنے والے
ہے شبِ غم کا ذائقہ کُچھ اور
ہر طرف بھیڑ تھی طبیبوں کی
روگ بڑھتا چلا گیا کُچھ اور
کٹ گئے دھار پہ زمانے کی
ہم سے امجد نہ ہوسکا کُچھ اور

چاندنی، جھیل نہ شبنم نہ کنول میں ہوگا


چاندنی، جھیل نہ شبنم نہ کنول میں ہوگا
اب تیرا عکس فقط اپنی غزل میں ہوگا

اور اک سانس کو جینے کی تمنا کر لیں
ایک لمحہ تو ابھی دشتِ اَجل میں ہوگا

راکھ ماضی کی کُریدو، نہ پَلٹ کر دیکھو
آج کا دن بھی ہُوا گُم، تو وہ کل میں ہوگا

کیوں کسی موڑ پہ رُک رُک کے صدا دیں اُس کو
وہ تو مصروف مُصافت کے عمل میں ہوگا

جس سے منسوب ہے تقدیر ِ دو عالم کا مزاج
وہ ستارہ بھی تیری ظلف کے بَل میں ہوگا

ہجر والو! وہ عدالت بھی قیامت ہوگی
فیصلہ ایک صدی کا، جہاں پًل میں ہوگا

اُس کو نیندوں کے نگر میں نہ بساؤ محسن
ورنہ شامل وہی نیندوں کے خلل میں ہوگا

شاعر : محسن نقوی

یوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جیسے


یوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جیسے
ساتھ چل موجِ صبا ہو جیسے
لوگ یوں دیکھ کر ہنس دیتے ہیں
تو مجھے بھول گیا ہو جیسے
موت بھی آئی تو اس ناز کے ساتھ
...مجھ پہ احسان کیا ہو جیسے
ایسے انجان بنے بیٹھے ہو
تم کو کچھ بھی نہ پتا ہو جیسے
ہچکیاں رات کو آتی ہی رہیں
تو نے پھر یاد کیا ہو جیسے
زندگی بیت رہی ہے دانش
اک بے جرم سزا ہو جیسے

تم میرا دکھ بانٹ رہی ہو


تم میرا دکھ بانٹ رہی ہو اور میں دل میں شرمندہ ہوں
اپنے جھوٹے دکھ سے تم کو کب تک دکھ پہنچاؤں گا

تم تو وفا میں سرگرداں ہو، شوق میں رقصاں رہتی ہو
مجھ کو زوالِ شوق کا غم ہے، میں پاگل ہو جاؤں گا

جیت کے مجھ کو خوش مت ہونا، میں تو اک پچھتاوا ہوں
کھوؤں گا ، کڑھتا رہوں گا ، پاؤں گا ، پچھتاؤں گا

عہدِ رفاقت ٹھیک ہے لیکن مجھ کو ایسا لگتا ہے
تم میرے ساتھ رہو گی میں تنہا رہ جاؤں گا

شام کو اکثر بیٹھے بیٹھے دل کچھ ڈوبنے لگتا ہے
تم مجھ کو اتنا نہ چاہو میں شاید مر جاؤں گا

عشق کسی منزل میں آ کر اتنا بھی بے فکر نہ رہو
اب بستر پر لیٹوں گا میں لیٹتے ہی سو جاؤں گا

ذات بن کہ میری ذات میں رہا کرتا ھے


ذات بن کہ میری ذات میں رہا کرتا ھے
اک شخص ھے جو مجھ میں بسا کرتا ھے

مرے چہرے میں نطر آتا ھے چہرا اس کا
اس کا تبسم مرے ھونٹوں پہ کھلا کرتا ھے

مرے لفظوں سے ادا ھوتی ھیں باتیں اس کی
مرے لہجے سے غرور اس کا چھلکا کرتا ھے

میری نیندوں پہ ھے برسوں سے حکومت اس کی
خواب بن ک وہ میری پلکوں پہ سجا کرتا ھے

اس حد تک میری ہستی میں موجود ھے وہ
مرے ھرنقش میں عکس اسکا ملا کرتا ھے

آج کی شام ہوا ہے نہ گھٹا


آج کی شام ہوا ہے نہ گھٹا
آسماں چادرِ تاریک، تہی
کرب کا پھیلتا صحرائے فنا
لوگ کہتے ہیں کہ دو چار گھڑی
چاند نکلا تھا مگر ڈوب گیا

دُور سوکھے ہوئے پیڑوں کے ہجوم
جیسے قبروں پہ صلیبوں کے نشاں
جیسے کاٹے ہوئے ہاتھوں کے علم
صحن زنداں میں ہر اک سمت اترتے سائے
جیسے ناؤ کو نگلتی ہوئی طغیانی نیل
جیسے کعبہ کی طرف بڑھتا ہوا لشکرِ فیل
میں نے کھڑکی کی سلاخوں میں کہیں
چاند سورج کی بنا کر شکلیں
ایک تصویر سجا رکھی ہے
ایک سُولی سی لگا رکھی ہے
رسمِ مقتل ہے یہی
کل بہت پھوٹ کے روئی تھی گھٹا
جیسے اُمید کوئی ٹوٹ گئی

اتنا پانی ہے کہ ہم غرق بھی ہو سکتے ہیں
آؤ کاغذ سے کوئی ناؤ بنا لیتے ہیں

رسمِ زنداں کو نبھانے کے لئے
آج کی شام گنوانے کے لئے

دل دعا اور دکھ دیا نہ ہوا


دل دعا اور دکھ دیا نہ ہوا
آدمی کیا ہے پھر ہوا نہ ہوا

دیکھتے رہیے ٹوٹتے رہیے
کیا یہاں ہو رہا ہے کیا نہ ہوا

لوگ ایسے کبھی دکھی نہ ہوئے
شہر ایسا کبھی بجھا نہ ہوا

ہائے اس آدمی کی تنہائی
جس کا دنیا میں اک خدا نہ ہوا

ہائے وہ دل شکستہ تر وہ دل
ٹوٹ کر بھی جو آئینہ نہ ہوا

جو بھی تھا عشق اپنے حال سے تھا
ایک کا اجر دوسرا نہ ہوا

اس کو بھی خواب کی طرح دیکھا
جو ہمارے خیال کا نہ ہوا

جب سمجھنے لگے محبت کو
پھر کسی سے کوئی گِلا نہ ہوا

دل بہ دل گفتگو ہوئی پھر بھی
کوئی مفہوم تھا ادا نہ ہوا

کربلا کیا ہے کیا خبر اس کو
جس کے گھر میں یہ واقعہ نہ ہوا

اور کیا رشتۂ وفا ہو گا
یہ اگر رشتۂ وفا نہ ہوا

دیکھ کر حسن اس قیامت کا
جو فنا ہو گیا فنا نہ ہوا

کوئی تو ایسی بات تھی ہم میں
یونہی یہ عہد مبتلا نہ ہوا

ایسے لوگوں سے کیا سخن کی داد
حروف ہی جن کا مسئلہ نہ ہوا

اب غزل ہم کسے سنانے جائیں
آج غالب غزل سرا نہ ہوا

وہ لڑکی


وہ لڑکی بھی ایک عجیب پہیلی تھی
پیاسے ہونٹ تھے آنکھ سمندر جیسی تھی

سورج اس کو دیکھ کر پیلا پڑتا تھا
وہ سرما کی دھوپ میں دھل کر نکلی تھی

اس کو اپنے سائے سے ڈر لگتا تھا
سوچ کے صحرا میں وہ تنہا ہرنی تھی

آتے جاتے موسم اس کو ڈستے تھے
ہنستے ہنستے پلکوں سے رو پڑتی تھی

آدھی رات گنوا دیتی تھی چپ رہ کر
آدھی رات کو چاند سے باتیں کرتی تھی

دور سے اجڑے مندر جیسا گھر اس کا
وہ اپنے گھر میں اکلوتی دیوی تھی

موم سے نازک جسم سحر کو دُکھتا تھا
دیئے جلا کر شب بھر آپ پگھلتی تھی

تیز ہوا کو روک کر اپنے آنچل پر
سوکھے پھول اکٹھے کرتی پھرتی تھی

سب ظاہر کر دیتی تھی بھید اپنا
سب سے ایک تصویر چھپائے رکھتی تھی

کل شب چکنا چور ہوا تھا دل اس کا
یا پھر پہلی بار وہ دل کھول کر روئی تھی

محسن کیا جانے دھوپ سے بے پروا
وہ اپنے گھر کی دہلیز پر بیٹھی تھی ؟

میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا


دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو، صبح بےنور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

پھول شاخوں پہ کھلنے لگے،تم کہو
جام رندوں کو ملنے لگے،تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے ،تم کہو
اِس کھلے جھوٹ کو، ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمھارا فسوں
چارہ گر میں تمہیں کس طرح سے کہوں
تم نہیں چارہ گر، کوئی مانے، مگر
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

حبیب جالب

عجب شے

یہ پیار بھی عجب شے ہے
اضطرار میں مضمر
انتشار سے آگے
اختیار سے باہر

احتیاط


بجا سہی یہ حیا اور یہ احتیاط مگر
کبھی کبھی تو محبت میں حوصلہ کیا کر

کتنا مشکل ہے زندگی کرنا

کتنا مشکل ہے زندگی کرنا
جس طرح تجھ سے دوستی کرنا

اِک کہانی نہ اور بن جائے
تم بات سرسری کرنا

ڈوب جاؤں نہ میں اندھیروں میں
اپنی آنکھوں کی روشنی کرنا

کس قدر دل نشیں لگتا ہے
بے ارادہ تجھے دُکھی کرنا

خون ِ دل صرف کرنا پڑتا ہے
دیکھنا!تم نہ شاعری کرنا

کتنا دُشوار ہے انا کے لیئے
سارے ماحول کی نفی کرنا

کیا کیا نہ خواب ہجر کے موسم میں کھو گئے

کیا کیا نہ خواب ہجر کے موسم میں کھو گئے
ہم جاگتے رہے تھے مگر بخت سو گئے

جیسے بدن سے قوسِ قزح پھوٹنے لگی
بارش کے ہاتھ پُھول کے سب زخم دھو گئے

آنکھوں میں دھیرے دھیرے اُتر کے پُرانے غم
پلکوں میں ننھّے ننھّے ستارے پرو گئے

وہ بچپنے کی نیند تو اب خواب ہو گئی
کیا عُمر تھی کہ رات ہُوئی اور سو گئے

آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

سمندر میں اُترتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تری آنکھوں کو پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

تمہارا نام لکھنے کی اجازت چھن گئی جب سے
کوئی بھی لفظ لکھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

تری یادوں کی خوشبو کھڑکیوں میں رقص کرتی ہے
ترے غم میں سلگتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

میں ہنس کے جھیل لیتا ہوں جدائی کی سبھی رسمیں
گلے جب اُس کے لگتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

نہ جانے ہو گیا ہوں اِس قدر حساس میں کب سے
کسی سے بات کرتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

وہ سب گزرے ہوئے لمحے مجھ کو یاد آتے ہیں
تمہارے خط جو پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

میں سارا دن بہت مصروف رہتا ہوں مگر جونہی
قدم چوکھٹ پہ رکھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

ہر اِک مفلس کے ماتھے پر الم کی داستانیں ہیں
کوئی چہرہ بھی پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

بڑے لوگوں کے اونچے بدنما اور سرد محلوں کو
غریب آنکھوں سے تکتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

ترے کوچے سے اب مرا تعلق واجبی سا ہے
مگر جب بھی گزرتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

ہزاروں موسموں کی حکمرانی ہے مرے دل پر
وصی میں جب بھی ہنستا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں

تو خدا ہے نہ مرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں

آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر
کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں

اب نہ وہ میں ہوں نہ تو ہے نہ وہ ماضی ہے فراز
جیسے دو سائے تمنا کے سرابوں میں ملیں

....میں خیال ہوں کسی اور کا


میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سرِ آئینہ مرا عکس ہے پس ِ آئینہ کوئی اور ہے

میں کسی کے دست ِ طلب میں ہوں تو کسی کے حرف ِ دعا میں ہوں
میں نصیب ہوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ہے
...
عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیان ہے زندگی
میں قریب ہوں کسی اور کے، مجھے جانتا کوئی اور ہے

تجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی، مجھے دوستوں کا پتہ نہ تھا
تری داستاں کوئی اور تھی، مرا واقعہ کوئی اور ہے

وہی منصفوں کی روایتیں، وہی فیصلوں کی عبارتیں
مرا جرم تو کوئی اور تھا، پہ مری سزا کوئی اور ہے

کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں، دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے

مری روشنی ترے خدّ و خال سے مختلف تو نہیں مگر
تُو قریب آ تجھے دیکھ لوں تُو وہی ہے یا کوئی اور ہے

جو مری ریاضتِ نیم شب کو سلیم صبح نہ مل سکی
تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور ہے