ہر بار میرے سامنے آتی رہی ہو تم
ہر بار تم سے مل کے بچھڑتا رہا ہوں میں
تم کون ہو یہ خود بھی نہیں جانتی ہو تم
میں کون ہوں یہ خود بھی نہیں جانتا ہوں میں
تم مجھ کو جان کر ہی پڑی ہو عذاب میں
اور اسطرح خود اپنی سزا بن گیا ہوں میں
تم جس زمین پر ہو میں اُس کا خدا نہیں
پس سر بسر اذیت و آزار ہی رہو
بیزار ہو گئی ہو بہت زندگی سے تم
جب بس میں کچھ نہیں ہے تو بیزار ہی رہو
تم کو یہاں کے سایہ و پرتو سے کیا غرض
تم اپنے حق میں بیچ کی دیوار ہی رہو
میں ابتدائے عشق سے بے مہر ہی رہا
تم انتہائے عشق کا معیار ہی رہو
تم خون تھوکتی ہو یہ سُن کر خوشی ہوئی
اس رنگ اس ادا میں بھی پُر کار ہی رہو
میں نے یہ کب کہا تھا محبت میں ہے نجات
میں نے یہ کب کہا تھا وفادار ہی رہو
اپنی متاعِ ناز لُٹا کر مرے لیئے
بازارِ التفات میں نادار ہی رہو
جب میں تمہیں نشاطِ محبت نہ دے سکا
غم میں کبھی سکونِ رفاقت نہ دے سکا
جب میرے سب چراغِ تمنا ہوا کے ہیں
جب میرے سارے خواب کسی بے وفا کے ہیں
پھر مجھ کو چاہنے کا تمہیں کوئی حق نہیں
تنہا کراہنے کا تمہیں کوئی حق نہیں
جون ايليا