دل کی بستی کے چلو آج سفیروں سے ملیں
آو الفت میں گرفتار اسیروں سے ملیں
ہونے والا ہے جو شائد کہ پتا چل جائے
اپنے ہاتھوں میں سجی آج لکیروں سے ملیں
چل چلیں خاک میں لپٹی ہوئی بستی کی طرف
شان دیکھی ہے بہت آج فقیروں سے ملیں
ہر طرف تیرگی پھیلی ہے جہاں تک دیکھو
کچھ اُجالا ہی کریں آو منیروں سے ملیں
غور کر لیں کے ہمارے لئے بہتر کیا ہے
بات آئے نہ سمجھ میں تو مشیروں سے ملیں
دشمنوں سے تو توقع ہی نہیں کر سکتے
ہے بھلائی کی تمنا تو ظہیروں سے ملیں
اُن کے بس کا یہ نہیں روگ یقینا اظہر
وقت ظائع نہ کریں آپ قدیروں سے ملیں