دل دعا اور دکھ دیا نہ ہوا
آدمی کیا ہے پھر ہوا نہ ہوا
دیکھتے رہیے ٹوٹتے رہیے
کیا یہاں ہو رہا ہے کیا نہ ہوا
لوگ ایسے کبھی دکھی نہ ہوئے
شہر ایسا کبھی بجھا نہ ہوا
ہائے اس آدمی کی تنہائی
جس کا دنیا میں اک خدا نہ ہوا
ہائے وہ دل شکستہ تر وہ دل
ٹوٹ کر بھی جو آئینہ نہ ہوا
جو بھی تھا عشق اپنے حال سے تھا
ایک کا اجر دوسرا نہ ہوا
اس کو بھی خواب کی طرح دیکھا
جو ہمارے خیال کا نہ ہوا
جب سمجھنے لگے محبت کو
پھر کسی سے کوئی گِلا نہ ہوا
دل بہ دل گفتگو ہوئی پھر بھی
کوئی مفہوم تھا ادا نہ ہوا
کربلا کیا ہے کیا خبر اس کو
جس کے گھر میں یہ واقعہ نہ ہوا
اور کیا رشتۂ وفا ہو گا
یہ اگر رشتۂ وفا نہ ہوا
دیکھ کر حسن اس قیامت کا
جو فنا ہو گیا فنا نہ ہوا
کوئی تو ایسی بات تھی ہم میں
یونہی یہ عہد مبتلا نہ ہوا
ایسے لوگوں سے کیا سخن کی داد
حروف ہی جن کا مسئلہ نہ ہوا
اب غزل ہم کسے سنانے جائیں
آج غالب غزل سرا نہ ہوا