آج کی شام ہوا ہے نہ گھٹا
آسماں چادرِ تاریک، تہی
کرب کا پھیلتا صحرائے فنا
لوگ کہتے ہیں کہ دو چار گھڑی
چاند نکلا تھا مگر ڈوب گیا
دُور سوکھے ہوئے پیڑوں کے ہجوم
جیسے قبروں پہ صلیبوں کے نشاں
جیسے کاٹے ہوئے ہاتھوں کے علم
صحن زنداں میں ہر اک سمت اترتے سائے
جیسے ناؤ کو نگلتی ہوئی طغیانی نیل
جیسے کعبہ کی طرف بڑھتا ہوا لشکرِ فیل
میں نے کھڑکی کی سلاخوں میں کہیں
چاند سورج کی بنا کر شکلیں
ایک تصویر سجا رکھی ہے
ایک سُولی سی لگا رکھی ہے
رسمِ مقتل ہے یہی
کل بہت پھوٹ کے روئی تھی گھٹا
جیسے اُمید کوئی ٹوٹ گئی
اتنا پانی ہے کہ ہم غرق بھی ہو سکتے ہیں
آؤ کاغذ سے کوئی ناؤ بنا لیتے ہیں
رسمِ زنداں کو نبھانے کے لئے
آج کی شام گنوانے کے لئے